موسمیاتی تبدیلی: پاکستان میں ماحول دوست تعمیر و تعلیم کی ایک کوشش
قابل تجدید ذرائع سے توانائی حاصل کرنے والی ماحول دوست تعمیرات بہت سے ماحولیاتی مسائل کا مداوا ہیں اور پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں اسی طرز پر بنایا گیا ایک تعلیمی ادارہ ملک کو موسمیاتی تبدیلی کے بعض بدترین اثرات سے نمٹنے کا مؤثر حل پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے مضافاتی علاقے ہنہ اوڑک میں 'کمیونٹی ڈویلپمنٹ یونیورسٹی' کے نام سے قائم یہ ادارہ مقامی لوگوں اور مقامی دانش کے ذریعے مقامی وسائل کو ہی بروئے کار لا کر قائم کیا گیا ہے۔
اس کی عمارت کی تعمیر میں سو فیصد نامیاتی مواد استعمال ہوا ہے جبکہ اس میں توانائی اور پانی کا انتظام بھی قابل تجدید ذرائع اور پائیدار طریقے سے کیا گیا ہے۔
ہنہ اوڑک کو شدید موسمی حالات کی زد میں رہنے والا بنجر علاقہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ اس جگہ نہ تو کوئی قابل ذکر زرعی سرگرمی ہوتی تھی اور نہ ہی اسے رہائش کے لیے کام میں لایا جاتا تھا۔
لیکن یہاں قائم کی جانے والا یہ تعلیمی ادارہ ناصرف مقامی سطح پر بلکہ صوبے بھر میں ماحول اور تعمیرات کے حوالے سے بہت سے لوگوں کی سوچ بدلنے میں معاون ثابت ہو رہا ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ سرکاری سطح پر سکولوں اور بنیادی مراکز صحت کی تعمیر میں اب اسی نمونے سے کام لینے پر غور ہو رہا ہے۔
بلوچستان: موسمیاتی آفات کا نشانہ
بلوچستان پاکستان کا ایسا علاقہ ہے جو اکثر خشک سالی سے متاثر رہتا ہے۔ یہاں کی تقریباً 70 فیصد آبادی دیہی ہے جسے تواتر سے شدید موسمی حالات درپیش رہتے ہیں۔ خشک موسمی کیفیت کی وجہ سے اس صوبے کو بارشوں کی شدت اور قلت جیسے عوامل سے بھی سنگین خطرہ لاحق ہے۔
پاکستان میں قدرتی آفات کے نقصانات پر قابو پانے کے ادارے 'نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی' کے مطابق گزشتہ سال آنے والے تباہ کن سیلاب نے بلوچستان میں 91 لاکھ 82 ہزار لوگوں یا صوبے کی آبادی کے 74 فیصد کو متاثر کیا جہاں تقریباً تین سو افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ سیلاب میں ایک لاکھ 25 ہزار سے زیادہ مکان تباہ ہوئے اور چار لاکھ 95 ہزار سے زیادہ گھروں کو جزوی نقصان پہنچا۔ اس قدرتی آفت میں تقریباً پانچ لاکھ مویشیوں کی ہلاکت بھی ہوئی۔
ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سیلاب موسمیاتی تبدیلی کے سنگین اثرات کی کڑی یاد دہانی ہے جن سے ہونے والی تباہی کو محدود رکھنے کے لیے دیگر اقدامات کے علاوہ ایسی تعمیرات کی اشد ضرورت ہے جن سے کسی بھی مرحلے میں گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج نہ ہو، جو پائیدار اور کم خرچ ہونے کے ساتھ ایسے انداز میں تعمیر کی جائیں جو مقامی لوگوں کو صدیوں سے قدرتی آفات کے مقابل تحفظ فراہم کرتا آیا ہے۔
مٹی کے کمرے، بارش کا پانی
موسمیاتی تبدیلیوں سے لاحق خطرات کا پیشگی اداراک کرتے ہوئے کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے ماحول دوست محقق اور استاد صفدر حسین اور ان کے ساتھیوں نے 2006 میں ایسا تعلیمی و تربیتی ادارہ بنانے کا سوچا جس میں خالصتاً ماحول دوست تعمیراتی مواد استعمال ہو اور اس سے خاص طور پر تعمیرات اور انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں کو اپنے کیریئر میں ایسے ہی اقدامات کی ترغیب ملے۔
ان کا یہ تصور 'کمیونٹی ڈویلپمنٹ یونیورسٹی' کی صورت میں سامنے آیا جس کے لیے روایتی مقامی تعمیراتی نمونے کو منتخب کیا گیا جو ماحول دوست ہونے کے ساتھ سستا اور پائیدار بھی ہے۔
اس ادارے کی عمارت پتھر، مٹی، لکڑی، گھاس پھونس، بانس اور ٹین کی چادروں سے بنی ہے اور اس میں کمرے کسی مشینی مدد کے بغیر سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈے رہتے ہیں۔
یہ تعلیمی ادارہ جس علاقے میں واقع ہے وہاں بجلی اور گیس دستیاب نہیں ہے، لیکن سال کے بیشتر حصے میں سورج کی روشنی میسر ہوتی ہے اور تیز ہوا بھی چلتی رہتی ہے۔ چنانچہ کیمپس میں توانائی کی ضروریات اس کی عمارتوں کی چھت پر نصب شمسی پینلوں، ایک ونڈ ٹربائن (ہوائی چکی) اور ادارے میں ہی پالے گئے مویشیوں کے گوبر سے حاصل ہونے والی بائیو گیس سے پوری کی جاتی ہیں۔ ان ذرائع سے تقریباً آٹھ میگاواٹ بجلی حاصل ہوتی ہے۔
مقامی دانش اور خود انحصاری
ادارے میں مقامی طرز پر چولہے بنائے گئے ہیں جہاں بہت کم لکڑی جلا کر بڑی مقدار میں حرارت حاصل کی جا سکتی ہے۔
یہاں بارش کا پانی تالابوں اور پرنالوں کے ذریعے زیرزمین ٹینکوں میں ذخیرہ کیا جاتا ہے اور پھر اسے کیمپس میں صفائی ستھرائی اور ادارے کے احاطے میں سبزیوں اور پھولوں کی کاشت کے لیے کام میں لایا جاتا ہے۔ فی الوقت کیمپس میں پانی کو صاف کرنے کا پلانٹ نہیں ہے اس لیے یہ پانی پینے کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا۔
ادارے میں بھیڑ بکریاں اور مرغیاں بھی پالی گئی ہیں جن کے دودھ، گوشت اور انڈوں سے ناصرف کیمپس میں کھانے کی ضروریات پوری کی جاتی ہیں بلکہ یہ آمدنی کا ذریعہ بھی ہیں۔
اس منصوبے کے لیے غیر سرکاری ادارے 'انسٹیٹوٹ فار ڈویلپمنٹ سٹڈیز اینڈ پریکٹس (آئی ڈی ایس پی) نے مالی تعاون کیا، حکومت نے چار ایکڑ اراضی مہیا کی اور مقامی لوگوں کی دانش اور صلاحیتیں کام آئیں۔
کنکریٹ کے مسائل
اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کے مطابق دنیا میں کاربن کے اخراج میں تعمیراتی صنعت کا مجموعی حصہ 38 فیصد ہے۔ اسی طرح کنکریٹ سے بنائی جانے والی عمارتیں کاربن کے سات فیصد تک اخراج کی کی ذمہ دار ہیں۔ پیرس ماحولیاتی معاہدے (2015) کے تحت 2050 تک اس اخراج کو صفر تک لانے کا ہدف حاصل کرنے کے لیے اس شعبے میں ماحول دوست اقدامات خاص طور پر ضروری ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کے بین الحکومتی پینل (آئی پی سی سی) نے خبردار کیا ہے کہ دنیا بھر کے بیشتر شہر اور آبادیاں شدید موسمی حالات سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں۔ انسانی تحفظ اور مالی نقصانات سے بچاؤ کے لیے ایسی تعمیرات کو فروغ دینا ہو گا جو ماحولیاتی اعتبار سے پائیدار ہوں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے سابق صوبائی رابطہ کار اور ماہر ماحولیات یحییٰ موسیٰ خیل کہتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کو روکنے اور اس کے اثرات سے نمٹنے کے لیے کنکریٹ کی جگہ کم آلودگی پیدا کرنے والا متبادل درکار ہے۔
ماحول دوست تعمیر
انہوں نے یو این نیوز اردو کو بتایا کہ مٹی کی عمارتیں ماحول دوست ہونے کے علاوہ زلزلے اور تیز رفتار ہوا کا بہتر طور سے مقابلہ کر سکتی ہیں کیونکہ ان میں کنکریٹ اور سیمنٹ سے برعکس شدید موسمی کیفیات کے دباؤ کو تقسیم کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔
ایسی عمارتیں شید بارش اور سیلابی ریلے سے بھی تحفظ مہیا کرتی ہیں کیونکہ ان میں نمی جذب کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے اور مٹی کی تہیں عمارتی ڈھانچے کو بیرونی طور پر زیادہ محفوظ رکھتی ہیں۔ بلوچستان کے موسمیاتی حالات کو دیکھا جائے تو مستقبل میں ایسی ہی عمارتوں کی ضرورت ہو گی
ہنہ اوڑک کے ماحول دوست تعلیمی ادارے کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہ صوبے میں اسی نوعیت کی متبادل اور پائیدار تعمیرات کے لیے عملی تربیت کے حصول کا واحد ادارہ ہے۔ ماحول دوست مواد سے تعمیر کی جانے والی اس کی عمارت سے گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج صفر ہے۔ اس میں پانی کو محفوظ کرنے کے نمونے کا بڑے پیمانے پر اطلاق کر کے صوبے میں آبی قلت کے مسائل سے بہتر طور پر نمٹا جا سکتا ہے۔
غیررسمی تعلیم، عملی تربیت
'کمیونٹی ڈویلپمنٹ یونیورسٹی' ڈگری جاری نہیں کرتی بلکہ یہاں صوبہ بھر سے آنے والے تعمیرات، انجینئرنگ اور ماحولیاتی سائنس کے طلبہ کو ماحول دوست تعمیرات کی عملی تربیت فراہم کی جاتی ہے۔
یہاں طلبہ کے لیے تربیتی پروگرام بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اینڈ مینجمنٹ سائنسز اور دیگر تعلیمی و تحقیقی اداروں اور ماہرین ماحولیات و تعمیرات سے مشاورت سے تیار کیا گیا ہے۔
اب تک تقریباً سات ہزار طالب علم اس تعلیمی ادارے کے تربیتی کورسز سے مستفید ہو چکے ہیں۔ یہاں سے پڑھ کر جانے والے طلبہ اس علم کو اپنے علاقوں میں عملی طور پر بھی آزماتے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی کا حقیقی خطرہ
صفدر حسین بتاتے ہیں کہ ادارے میں مقامی طرز پر پائیدار اور ماحول دوست مواد سے ہونے والی تعمیرات اور یہاں پڑھائے جانے والے نصاب سے صوبہ بھر کے لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ لوگوں نے بارشوں کے پانی کو قابل استعمال بنانے کی تکنیک سیکھ کر اسے اپنے علاقوں میں کامیابی سے استعمال کیا ہے تو بعض نے کم لکڑی میں زیادہ حرارت دینے والے چولہوں سے کام لینا شروع کر دیا ہے۔ اسی طرح بعض لوگوں نے اپنے علاقوں میں مٹی گارے اور لکڑی سے ماحول دوست تعمیرات کی ہیں تو بعض ونڈ ٹربائن سے توانائی حاصل کر رہے ہیں۔
صفدر حسین نے ہنستے ہوئے کہا کہ کئی لوگ مذاق اڑاتے ہیں کہ اکیسویں صدی میں سیمنٹ اور شیشے کے گھروں میں رہنے والے لوگ کیسے مٹی گارے کے جھونپڑوں میں رہیں گے۔ ’ تو ہم اس بات کا برا نہیں مناتے بلکہ انہیں بتاتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کا خطرہ حقیقی ہے اور مستقبل میں یہی تعمیرات قدرتی آفات کا مقابلہ کریں گی۔‘