دنیا کے آبی وسائل کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے: ڈبلیو ایم او
عالمی ادارہء موسمیات (ڈبلیو ایم او) نے بتایا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں کرہ ارض کا 'آبی چکر' تیزی سے غیرمتوازن ہوتا جا رہا ہے۔
دنیا میں پانی کے ذرائع کی صورتحال پر ادارے کی تازہ ترین رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ تباہ کن خشک سالی، شدید بارشوں اور بڑے پیمانے پر برف پگھلاؤ نے طویل مدتی آبی تحفظ کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔
زمین سے پانی کے بخارات بن کر فضا کا رخ کرنے اور پھر بارشوں کی صورت میں دوبارہ زمین واپس آنے کو آبی چکر یا ہائیڈرولوجیکل سائیکل کہا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق زمین کی نمی اور کرہ ارض کے پانی کی تبخیر یا پودوں کے ذریعے بخارات بن کر فضا میں منتقلی کا عمل 2022 میں ہر جگہ یکساں نہیں رہا۔
رپورٹ میں تازہ پانی کے ذرائع کے بارے میں بہتر طور سے جانکاری کی ضرورت اور اس سلسلے میں پالیسی کے حوالے سے بنیادی تبدیلی لانے پر زور دیتے ہوئے آبی ذرائع کی نگرانی میں اضافہ کرنے، معلومات کے تبادلے، سرحدپار تعاون اور پانی کے موثر انتظام کے لیے کہا گیا ہے۔
ڈبلیو ایم او کے سیکرٹری جنرل پیٹری ٹالس کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ دنیا بھر میں آبی ذخائر کا ایک جامع اور متواتر جائزہ پیش کرتی ہے اور اس میں ان ذخائر پر موسمیاتی، ماحولیاتی اور سماجی تبدیلیوں کے اثرات کو واضح کیا گیا ہے۔
آبی چکر میں خلل
'یو این واٹر' کے مطابق اس وقت دنیا میں 3.6 ارب لوگوں کو سال میں کم از کم ایک مہینہ ضرورت کے مطابق پانی دستیاب نہیں ہوتا اور 2050 تک یہ تعداد پانچ ارب تک پہنچ جانے کی توقع ہے۔
گلیشیئر اور برف کی تہہ غائب ہوتے جا رہے ہیں۔ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت نے آبی چکر میں خلل ڈال دیا ہے۔ گرم فضا میں نمی کی مقدار بڑھ جاتی ہے جس کے نتیجے میں شدید بارشیں ہوتی ہیں اور اس طرح سیلاب بھی تواتر اور شدت سے آتے ہیں۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو عمل تبخیر، زمین کی خشکی اور خشک سالی کی شدت میں بھی اضافہ ہونے لگا ہے۔
پانی کے زرائع کی صورت حال
دریاؤں اور آبی ذخائر کی صورتحال کو دیکھا جائے تو دنیا میں نصف آبی مقامات پر حالات سابقہ معمول کے مطابق نہیں رہے اور ایسی بیشتر جگہیں پہلے سے زیادہ خشک ہو گئی ہیں۔
اگرچہ اس موضوع پر مزید تحقیق اور افریقہ، مشرق وسطیٰ اور ایشیا جیسے خطوں سے مزید معلومات بھی درکار ہیں تاہم دنیا بھر کے 273 مقامات سے لیے گئے اعدادوشمار کی بنیاد پر اس رپورٹ سے واضح نتائج سامنے آتے ہیں۔
شدید خشک سالی سے امریکہ، شاخِ افریقہ، مشرق وسطیٰ اور جنوبی امریکہ کے لا پلاٹا طاس میں وسیع علاقے متاثر ہوئے۔ یورپ میں موسم سرما کے دوران عمل تبخیر میں اضافہ ہوا اور زمین کی نمی میں کمی آئی۔ مزید برآں، براعظم میں آنے والی خشک سالی نے ڈینیوب اور رہائن جیسے دریاؤں کے لیے بھی مسائل پیدا کیے یہاں تک کہ فرانس میں ٹھنڈے کی پانی کی کمی کے باعث جوہری توانائی کی پیداوار میں بھی خلل آیا۔
پاکستان میں دریائے سندھ کے طاس میں شدید طوفان آیا۔ اس آفت کے نتیجے میں کم از کم 1,700 افراد ہلاک اور مجموعی طور پر تین کروڑ 30 لاکھ لوگ متاثر ہوئے جبکہ 80 لاکھ بے گھر ہو گئے۔ ایشیا میں چین کے دریائے یانگ ژی کے طاس میں شدید خشک سالی دیکھنے کو ملی۔
براعظم افریقہ کے مختلف حصوں کی آبی صورتحال میں بھی فرق رہا۔ شاخ افریقہ کو شدید خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا جہاں 21 ملین لوگ غذائی عمد تحفظ کا شکار ہوئے جبکہ نائیجر کے طاس اور جنوبی افریقہ کے ساحلی علاقوں میں معمول سے کہیں زیادہ بارشیں ہوئیں اور بڑے پیمانے پر سیلاب آئے۔
پگھلتی برف
ایشیا کے واٹر ٹاور (کوہ ہمالیہ اور کوہ ہندوکش) میں گلیشیئر تیز رفتار سے پگھلے جس کے نتیجے میں دریائے سندھ، آمو دریا، یانگ ژی اور دریائے زرد میں پانی کے بہاؤ میں بھی اضافہ ہوا۔ اس سے خطے میں پانی کے ذرائع پر موسمیاتی تبدیلی کے شدید ہوتے اثرات کی وضاحت ہوتی ہے۔
2022 میں کوہ الپس پر برف کی تہہ میں گزشہ 30 سال کی اوسط کے مقابلے میں نمایاں کمی ہوئی جس کے نتیجے میں یورپ کے بڑے دریاؤں میں پانی کی مقدار بڑھ گئی۔
اینڈیز میں موسم سرما کے دوران برف کی تہہ میں کمی ریکارڈ کی گئی جو 2021 میں اپنی انتہائی سطح پر تھی۔ تاہم 2022 میں اس کی مقدار میں قدرے اضافہ ہوا اور چلی و ارجنٹائن میں پانی کی ترسیل پر اثر پڑا۔ جارجیا کے گلیشیئروں سے متعلق مشاہدات سے ظاہر ہوتا ہےکہ وہاں بھی حالیہ برسوں میں برف کے پگھلاؤ کی شرح بڑھ گئی ہے۔