انسانی کہانیاں عالمی تناظر

امریکی پولیس اور عدلیہ میں ’موجود نسل پرستی‘ پر ماہرین کی تنقید

نیویارک کی ایک جیل۔
UN News/Daniel Dickinson
نیویارک کی ایک جیل۔

امریکی پولیس اور عدلیہ میں ’موجود نسل پرستی‘ پر ماہرین کی تنقید

انسانی حقوق

انسانی حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ کے مقرر کردہ غیرجانبدار ماہرین نے کہا ہے کہ امریکہ میں پولیس اور انصاف کے فوجداری نظام فوری اصلاحات کے متقاضی ہیں تاکہ افریقی النسل لوگوں کے خلاف "منظم نسل پرستی" کا خاتمہ ہو سکے۔

اقوام متحدہ کے بین الاقوامی ماہرین نے ملک کا دورہ کرنے کے بعد نفاذ قانون میں نسلی انصاف اور مساوات کے فروغ سے متعلق ایک نئی رپورٹ شائع کی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ میں سیاہ فام افراد کو پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہونے کا خدشہ سفید فام افراد کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہوتا ہے اور حراستوں کی بات ہو تو یہ فرق 4.5 فیصد زیادہ ہو سکتا ہے۔ 

Tweet URL

ماہرین پر مشتمل اس ٹاسک فورس کی رکن ڈاکٹر ٹریسی کیسی نے کہا ہے کہ متاثرین کو انصاف نہ ملنے یا ان کے نقصان کا ازالہ نہ ہونے کے بارے میں لوگوں نے انہیں جو کچھ بتایا ہے وہ نہایت دل شکن اور ناقابل قبول ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ ناانصافی کی اس کھلی چھوٹ پر قابو پانے کے کام میں پولیس کے محکموں اور ان کی انجمنوں سمیت سبھی متعلقہ کرداروں کو اپنا حصہ ڈالنا ہو گا۔ 

غلامی کی میراث 

امریکہ کے دورے میں ماہرین نے ڈسٹرکٹ آف کولمبیا، اٹلانٹا، لاس اینجلس، شکاگو، منیاپولیئس اور نیویارک سٹی میں 133 متاثرہ افراد سے بات چیت کی، پانچ حراستی مراکز کا دورہ کیا اور سول سوسائٹی کے گروہوں اور سرکاری و پولیس حکام سے ملاقاتیں کیں۔  

ان کا کہنا ہے کہ امریکہ میں نسل پرستی, غلامی کی میراث، غلاموں کی تجارت اور 100 سالہ تک قانونی رہنے والی نسلی عصبیت، جس کے بعد غلامی کا خاتمہ ہوا، آج بھی لوگوں کو نسلی بنیاد پر دیکھنے، پولیس کے ہاتھوں ہلاکتوں اور انسانی حقوق کی دیگر پامالیوں کی صورت میں جاری ہے۔ 

پابند سلاسل زچگی 

ماہرین نے انصاف کے فوجداری نظام میں افریقی النسل لوگوں کی بہت بڑی تعداد کو سزائیں دیے جانے کے خوفناک رحجان کی مذمت کی۔

انہوں ںے افریقی النسل بچوں کو عمر قید کی سزا دینے، قید کاٹنے والی حاملہ خواتین کو بچے کی پیدائش کے موقع پر بھی زنجیروں سے باندھ کر رکھے جانے اور سیاہ فام لوگوں کو 10 برس تک قید تنہائی میں رکھنے پر تشویش کا اظہار کیا۔ 

'کالی بھیڑیں' واحد قصوروار نہیں'

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں ہر سال پولیس کے ہاتھوں ہلاکتوں کے 1,000 سے زیادہ واقعات پیش آتے ہیں لیکن ایسے صرف ایک فیصد واقعات میں ہی پولیس اہلکاروں کو مجرم ٹھہرایا جاتا ہے۔ 

ماہرین نے خبردار کیا کہ اگر امریکہ میں طاقت کے استعمال سے متعلق ضابطوں میں بین الاقوامی معیارات کے مطابق اصلاح نہ لائی گئی تو پولیس کے ہاتھوں ہلاکتیں جاری رہیں گی۔

انسانی حقوق کونسل کے مقرر کردہ ماہرین کے پینل کو 'طریقہ کار' بھی کہا جاتا ہے جس کے رکن پروفیسر خوآن مینڈیز کا کہنا ہے کہ یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ پولیس میں 'چند کالی بھیڑیں' ہی ایسے واقعات میں ملوث ہیں۔ اس سے برعکس ایسے واضح ثبوت موجود ہیں کہ بعض پولیس اہلکاروں کا بدسلوکی پر مبنی طرزعمل وسیع تر اور خطرناک طریقہ کار کا حصہ ہے۔ 

انہوں نے واضح کیا کہ پولیس اور نظام ہائے انصاف امریکہ کے معاشرتی رویوں اور رواج کے عکاس ہیں اور جامع اصلاحات کا تقاضا کرتے ہیں۔ 

متبادل طریقہ کار 

رپورٹ کے مصنفین نے زور دیا ہےکہ ذہنی صحت کے مسائل سے دوچار اور بے گھر لوگوں کی کسی حرکت سمیت ہر سماجی مسئلے پر مسلح پولیس اہلکاروں کو سب سے پہلے ردعمل نہیں دینا چاہیے۔ انہوں نے نفاذ قانون کے متبادل طریقہ ہائے کار اختیار کرنے کے لیے کہا ہے۔

ماہرین نے پولیس حکام پر کام کے بوجھ اور نفاذ قانون کے محکموں میں منظم نسل پرستی کا تذکرہ بھی کیا ہے جس پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ 

ماہرین کی سفارشات 

رپورٹ میں امریکہ اور اس کے دائرہ اختیار میں آنے والی تمام جگہوں بشمول ملک میں پولیس کے 18,000 سے زیادہ اداروں کے لیے 30 سفارشات تیار کی ہیں۔ اس میں نفاذ قانون کے حوالے سے مقامی اور وفاقی سطح پر اچھے طریقہ ہائے کار کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے۔ 

پروفیسر مینڈیز کا کہنا ہے کہ ماہرین ملک کے دیگر حصوں میں بھی اچھے طریقہ ہائے کار اختیار کرنے پر زور دیتے ہیں اور ان سفارشات پر عملدرآمد کے لیے امریکہ کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کے متمنی ہیں۔ 

'طریقہ کار' انسانی حقوق کونسل کے مقرر کردہ تین ماہرین پر مشتمل ہے جن میں جسٹس یونے موکگورو (سربراہ)، ڈاکٹر کیسی اور پروفیسر میںڈیز شامل ہیں۔ ماہرین اقوام متحدہ کے عملے کا حصہ نہیں ہیں اور اپنے کام کی اجرت بھی نہیں لیتے۔