انسانی کہانیاں عالمی تناظر
فلسطینی ریاست کے صدر محمود عباس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 78ویں اجلاس سے خطاب کر رہے ہیں۔

اسرائیل فلسطین تنازعہ کے دو ریاستی حل کو سبوتاژ کیا جا رہا ہے: محمود عباس

UN Photo/Cia Pak
فلسطینی ریاست کے صدر محمود عباس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 78ویں اجلاس سے خطاب کر رہے ہیں۔

اسرائیل فلسطین تنازعہ کے دو ریاستی حل کو سبوتاژ کیا جا رہا ہے: محمود عباس

اقوام متحدہ کے امور

فلسطین کے صدر محمود عباس نے کہا ہے کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ فلسطینی عوام کو ان کے تمام جائز قومی حقوق دیے بغیر مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہوسکتا ہے تو وہ غلطی پر ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 78ویں اجلاس کے عام مباحثے میں خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ آزادی اور خودمختاری کی جدوجہد کے لیے فلسطینی عوام کے نصب العین کو لے کر جنرل اسمبلی میں آئے ہیں اور دنیا کو پچھتر سال قبل نقبہ کے نتیجے میں پیش آنے والے اس سانحے کی یاد دلانا چاہتے ہیں جس کے اثرات فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل کے قبضے کے نتیجے میں مزید شدید ہو رہے ہیں۔

اوسلو معاہدے سے فرار

انہوں نے واضح کیا کہ فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کا قبضہ اس مسئلے پر ایک ہزار سے زیادہ بین الاقوامی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔ قبضے اور نسل پرستی کو دوام دینے کے لیے تاریخی، جغرافیائی اور آبادیاتی حقائق کو تیزی سے تبدیل کرتے ہوئے بین الاقوامی قانون اور عالمی قانونی جواز کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ 

محمود عباس نے الزام عائد کیا کہ اسرائیل اوسلو معاہدے پر دستخط کے تیس سال بعد اس سے علیحدگی اختیار کر رہا ہے۔

تاہم، انہوں نے امید ظاہر کی کہ اقوام متحدہ اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کرنے میں کامیاب رہے گا جن میں اسرائیلی قبضے کے خاتمے اور فلسطین کے ایک مکمل خودمختار ریاست کی حیثیت سے آزادی حاصل کرنے کی بات کی گئی ہے جس کا دارالحکومت 4 جون 1967 کی سرحدوں کے مطابق مشرقی یروشلم میں ہے۔

اسرائیلی جارحیت

صدر عباس نے الزام عائد کیا کہ اسرائیل میں دائیں بازو کی نسل پرست حکومت قائم ہے جو فلسطینی عوام پر حملے کر رہی ہے اور اپنی فوج اور نسل پرست دہشت گرد آباد کاروں کے ذریعے فلسطینیوں کو دھمکانے، انہیں قتل کرنے، ان کے گھروں اور املاک کو تباہ کرنے اور ان کے مالی وسائل چرانے میں لگی ہے اور فسلطینیوں کی لاشوں کو ان کے لواحقین کے حوالے کرنے سے انکاری ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل دنیا کی نظروں کے سامنے، بلا روک و ٹوک اور کسی سزا اور احتساب کے بغیر یہ تمام کارروائیاں کر رہا ہے۔ 

مسجد اقصیٰ کے انہدام کا خطرہ

محمود عباس نے اسرائیلی حکومت پر یروشلم شہر پر حملہ کرنے، وہاں کے لوگوں اور اسلامی و عیسائی مقامات مقدسہ پر حملہ کرنے اور ان کی تاریخی اور قانونی حیثیت کو پامال کرنے کا الزام عائد کیا۔

انہوں نے خبردار کیا کہ قابض حکام کی جانب سے مسجد اقصیٰ کے نیچے اور اس کے ارد گرد سرنگیں کھودنے سے یہ مکمل یا جزوی طور پر منہدم ہو سکتی ہے جس کے تباہ کن حد تک ناخوشگوار نتائج برآمد ہوں گے۔

بہرہ کرنے والی خاموشی

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے سیاسی نزاع کو مذہبی تنازع میں تبدیل کیے جانے کے خلاف بارہا خبردار کیا اور اس صورتحال کی مکمل ذمہ داری اسرائیل پر عائد ہو گی۔ انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ یروشلم کی تاریخی اور قانونی حیثیت اور وہاں مقدس مقامات کے تحفظ کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔

محمود عباس نے سوال کیا کہ قابض اسرائیلی ریاست کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی پر خاموشی کیوں ہے؟ اسرائیل سے جواب طلبی کیوں نہیں کی جاتی اور بین الاقوامی قراردادوں کو نظر انداز کرنے اور ان کی خلاف ورزی کرنے پر اس کے خلاف پابندیاں کیوں نہیں عائد کی جاتیں؟ جب اسرائیل کی بات ہو تو دہرا معیار کیوں اپنایا جاتا ہے؟

مکمل رکنیت کا مطالبہ

 محمود عباس نے اسرائیل پر اس مسئلے کے دو ریاستی حل کو منظم طریقے سے تباہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے رکن ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ متعلقہ بین الاقوامی قراردادوں اور عالمی قانون کی بنیاد پر اس حوالے سے عملی اقدامات اٹھائیں۔

انہوں نے تاحال فلسطین کو بطور ریاست تسلیم نہ کرنے والے ممالک سے بھی مطالبہ کیا وہ اسے تسلیم کریں اور ریاست فلسطین کو اقوام متحدہ میں مکمل رکنیت دینے کا مطالبہ کریں۔

محمود عباس نے اقوام متحدہ اور اس کے سیکرٹری جنرل سے کہا کہ وہ ایک بین الاقوامی امن کانفرنس منعقد کریں جس میں مشرق وسطیٰ میں امن کے حصول کے لیے تمام متعلقہ ممالک شریک ہوں۔

انہوں نے کہا کہ یہ کانفرنس دو ریاستی حل کو قابل حصول رکھنے اور خطے اور دنیا کی سلامتی و استحکام کے لیے خطرہ بننے والے حالات کو مزید بگڑنے سے روکنے کا آخری موقع ہو سکتا ہے۔