انسانی کہانیاں عالمی تناظر

فلسطینی علاقے پر اسرائیلی قبضہ غیر قانونی ہے: کمیشن آف انکوائری

فسلطینی خواتین مغربی کنارے میں رمالہ کے قریب اسرائیل کی طرف سے کھڑی کی گئی دیوار کے پاس سے گزر رہی ہیں۔
IRIN/Shabtai Gold
فسلطینی خواتین مغربی کنارے میں رمالہ کے قریب اسرائیل کی طرف سے کھڑی کی گئی دیوار کے پاس سے گزر رہی ہیں۔

فلسطینی علاقے پر اسرائیلی قبضہ غیر قانونی ہے: کمیشن آف انکوائری

انسانی حقوق

فلسطینی علاقے پر اسرائیل کا قبضہ اپنی مستقل نوعیت اور اسرائیلی حکومت کی ان علاقوں کے حقیقی الحاق کی پالیسیوں کی بناء پر بین الاقوامی قانون کے تحت ناجائز ہے۔ یہ بات اس معاملے میں اقوام متحدہ کے مقرر کردہ تحقیقاتی کمیشن نے جمعرات کو شائع کردہ اپنی پہلی رپورٹ میں کہی ہے۔

سہ رکنی کمیشن اس معاملے میں عالمی عدالت انصاف(آئی سی جے)

Tweet URL

سے رجوع کرنے پر زور دے رہا ہے جو کہ اقوام متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت ہے۔

کمیشن کے ارکان نے خاص طور پر کہا ہے کہ بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت دوران جنگ کسی علاقے پر قبضہ ایک عارضی صورتحال ہوتی ہے جو مقبوضہ جگہ کو اس کی ریاستی حیثیت یا خودمختاری سے محروم نہیں کرتی۔

 

اقوام متحدہ کا بنیادی اصول

کمیشن کی چیئرپرسن نوی پِلے کا کہنا ہے کہ ''سیکرٹری جنرل اور اقوام متحدہ کے متعدد رکن ممالک کے حالیہ بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ کسی ملک کی جانب سے دوسرے ملک کے علاقے کا اپنے ساتھ یکطرفہ طور پر الحاق کرنے کی کوئی بھی کوشش بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہے اور ایسی کوشش ناجائز تصور کی جاتی ہے۔ گزشتہ ہفتے اسرائیل سمیت اقوام متحدہ کے 143 رکن ممالک نے اسی بات کی تصدیق کے لیے جنرل اسمبلی میں پیش کی جانے والی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا تھا۔''

انہون ںے مزید کہا کہ ''جب تک اقوام متحدہ کے چارٹر کے اس بنیادی اصول کا مقبوضہ فلسطینی علاقے کی صورتحال سمیت دنیا بھر میں اطلاق نہیں کیا جاتا اس وقت تک یہ اصول بے معنی رہے گا۔''

کمیشن نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے کہا ہے کہ وہ اس قبضے کے قانونی اثرات پر آئی سی جے کی ہنگامی مشاورتی رائے کے لیے درخواست دے۔

آبادی کاری کے اقدامات کا جائزہ

کمیشن نے ارکان نے اپنی رپورٹ تیار کرنے کے لیے اسرائیل کی ان پالیسیوں اور اقدامات کا ازسرنو جائزہ لیا جن کے ذریعے اسے اپنا قبضہ برقرار رکھنے اور مقبوضہ فلسطینی علاقے کے حصوں کا اپنے ساتھ الحاق کرنے میں مدد ملتی ہے۔

انہوں ںے رپورٹ میں خاص طور پر کہا ہے کہ کیسے اسرائیل نے ''آبادکاری کے اقدام'' کو قائم رکھا اور اسے ترقی دی جس میں اسرائیلی حکام کے ایسے بیانات بھی شامل ہیں جن میں بین الاقوامی قانون کے خلاف اس زمین پر مستقل قبضہ رکھنے کے ارادے کا اظہار کیا گیا ہے۔

کمیشن نے اپنی رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اسرائیل بزور طاقت فلسطینی علاقے پر قبضہ کرنے کا اقدام جاری رکھ اپنی عالمی ذمہ داریوں سے روگردانی کر رہا ہے اور فلسطینیوں کے انفرادی اور اجتماعی حقوق کی پامالی پر اس کا محاسبہ کیا جانا چاہیے۔

پلائے نے کہا کہ ''ایک کے بعد دوسری اسرائیلی حکومت نے نئی آبادیوں کے قیام یا ان کے قیام میں سہولت دے کر اور اسرائیل کے شہریوں کو براہ راست یا بالواسطہ طریقے سے ان آبادیوں میں منتقل کر کے مغربی کنارے میں اسرائیل کا مستقبل قبضہ یقینی بنانے کی غرض سے ٹھوس اقدامات کیے ہیں۔''

زمین سے متعلق ممانعتی پالیسیاں

کمیشن نے مغربی کنارے میں اسرائیل کی جانب سے زمین اور وہاں کے قدرتی وسائل پر قبضہ اور استحصالی اقدامات اور اس کی ممانعتی شہری منصوبہ بندی اور حلقہ بندی کی پالیسیوں کا جائزہ بھی لیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ زمین عام طور پر فوجی مقاصد کے لیے قبضے میں لی جاتی ہے لیکن بعد میں اس پر آبادکاری کی غرض سے تعمیرات کی جاتی ہیں۔

کمیشن نے اسرائیلی حکام کے بیانات کا جائزہ لیا جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ فلسطینی تعمیرات کو اسرائیل کی جانب سے آبادکاری میں رکاوٹ کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور انہیں قبضے میں لینے، منہدم کرنے اور وہاں رہنے والے لوگوں کو بے دخل کرنے جیسے اقدامات کی بات کی جاتی ہے۔

مشرقی یروشلم میں بھی یہی کچھ دیکھا گیا اور ایسے اقدامات کا ممانعتی منصوبہ بندی اور حلقہ بندی کے ذریعے فلسطینیوں کے لیے زمین تنگ کرنے میں اہم کردار ہے۔

'خاموش نقصان' اور صدمہ

رپورٹ میں اسرائیلی حکومت کی ایسی پالیسیوں پر بھی بات کی گئی ہے جنہوں نے فلسطینیوں کی زندگی کے ہر پہلو کو متاثر یا ہے جن میں صاف اور کم قیمت پانی تک رسائی بھی شامل ہے۔

کمیشن کے رکن میلون کوٹھاری کا کہنا ہے کہ ''معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق کے خاتمے سے بہت سا 'خاموش نقصان' اور نفسیاتی صدمہ جنم لیتا ہے جو فوری طور پر سامنے نہیں آتا۔ محضمل کر دینے والے ان طریقہ ہائے کار کے بہت سے مختصر اور طویل مدتی نتائج ہیں اور ان سے ہنگامی طور پر نمٹا جانا چاہیے۔''

کمیشن نے قبضے اور حقیقتی الحاق سے متعلق پالیسیوں کا جائزہ بھی لیا جو فلسطینیوں کے انسانی حقوق کو متاثر کر رہی ہیں اور فلسطین کی خواتین اور بچوں پر بھی اثر ڈال رہی ہیں۔  

رپورٹ کے مطابق"جابرانہ ماحول' کے باعث فلسطینی اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہیں اور اس ماحول نے فلسطینی معاشرے  میں انتشار پھیلایا ہے اور حق خود اختیاری کے حصول میں رکاوٹیں ڈالی ہیں۔''

عالمی اقدام کی ضرورت

رپورٹ کے آخر میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی حکومت کی بعض پالیسیاں اور اقدامات بین الاقوامی قانون کے تحت جرم ہیں جن میں اپنی ہی کچھ شہری آبادی کی مقبوضہ علاقے میں منتقلی کا جنگی جرم بھی شامل ہے۔

کمیشن کے رکن کرس سیڈوٹی کا کہنا ہے کہ ''ہماری رپورٹ میں اسرائیل کی حکومت کے جن اقدامات کا جائزہ لیا گیا وہ غیرقانونی قبضے اور الحاق کی ذیل میں آتے ہیں جس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔''

انہوں ںے کہا کہ ''بین الاقوامی نظام اور انفرادی ممالک کو عالمی قانون کے تحت اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرنا چاہیے اور ان کی پاسداری کرنی چاہیے۔ یہ کام جنرل اسمبلی کے اسی اجلاس میں شروع ہونا چاہیے جس میں اس معاملے پر عالمی عدالت انصاف سے رجوع کیا جائے۔'' 

تحقیقاتی کمیشن کا تعارف

مقبوضہ فلسطینی علاقے بشمول مشرقی یروشلم اور اسرائیل کے لیے غیرجانبدار بین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی کونسل کی جانب سے کام کرتا ہے۔

اس کمیشن کے ارکان اقوام متحدہ کے عملے کا حصہ نہیں ہوتے اور انہیں اس کام کا کوئی معاوضہ نہیں دیا جاتا۔

یہ ارکان 27 اکتوبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی رپورٹ پیش کریں گے۔