انسانی کہانیاں عالمی تناظر

موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کی کانفرنس بارے جاننے کی اہم باتیں

ویتنام کا ہوائی چکیوں پر مشتمل ایک بجلی گھر۔
© ADB/Viet Tuan
ویتنام کا ہوائی چکیوں پر مشتمل ایک بجلی گھر۔

موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کی کانفرنس بارے جاننے کی اہم باتیں

موسم اور ماحول

کرہ ارض کو تحفظ دینے کے اقدامات کی رفتار تیز ہونے کو ہے جب دنیا بھر کے رہنما، بڑے کاروبار اور ماہرین موسمیاتی عزم سے متعلق کانفرنس کے لیے 20 ستمبر کو اکٹھے ہو رہے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانے سے متعلق تقریباً تمام اشاریے غلط سمت کو جا رہے ہیں۔ شدید موسمی واقعات کے باعث لاکھوں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہیں، زمین گرم ہو رہی ہے اور کینیڈا سے جزائر یونان تک جنگلوں کی بےقابو آگ موت اور تباہی کا باعث بن رہی ہے۔ 

دنیا بھر میں 75 فیصد گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج تاحال کوئلے، تیل اور گیس کے استعمال کے باعث ہو رہا ہے جس سے موسمیاتی بحران بڑھ رہا ہے۔

اگرچہ موسمیاتی بحران سے پہلے ہی بہت بڑے پیمانے پر نقصان ہو رہا ہے اور دنیا بھر میں گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا ہے لیکن تبدیلی اب بھی ممکن ہے۔ 

موسمیاتی بحران پر قابو پانے کے لیے بہت سے اجلاس ہو چکے ہیں لیکن اقوام متحدہ کی حالیہ جنرل اسمبلی کے دوران 20 ستمبر کو ہونے والا یہ اجلاس اس لیے منفرد ہے کہ یہ ایک اہم سیاسی سنگ میل پیش کرتا ہے۔ اس موقع پر اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک تمام لوگوں کے لیے دنیا کو منصفانہ، ماحول دوست اور صاف بنانے کے لیے اکٹھے ہونے اور اجتماعی عالمی عزم کا مظاہرہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ 

آپ کو اس حوالے سے درج ذیل پانچ باتوں سے آگاہ ہونا چاہیے: 

1۔ وقت پورا ہو گیا 

موسمیاتی تبدیلی کے خلاف لندن میں مظاہرے کے شرکاء۔
Unsplash/Sean Robbins
موسمیاتی تبدیلی کے خلاف لندن میں مظاہرے کے شرکاء۔

موسمیاتی بحران سے تمام لوگ اور تمام ممالک متاثر ہوتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق دنیا کی نصف آبادی پہلے ہی موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے خطرناک علاقوں میں رہ رہی ہے جہاں اس مسئلے سے متعلقہ اثرات کے باعث موت کا امکان 15 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔ گزشتہ نصف صدی میں موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں جنم لینے والی قدرتی آفات سے ہونے والی تقریباً 70 فیصد اموات دنیا کے 46 کم ترین ترقی یافتہ ممالک میں ہوئیں۔ 

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ عالمی حدت کا دور ختم ہو گیا ہے اور اب عالمگیر کھولاؤ کا دور آ گیا ہے۔ ہوا سانس لینے کے قابل نہیں رہی، گرمی ناقابل برداشت ہو چکی ہے اور معدنی ایندھن کے منافعوں اور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں بے عملی ناقابل قبول ہیں۔ رہنماؤں کو قائدانہ کردار ادا کرنا ہو گا۔ مزید تذبذب اور بہانوں کی گنجائش نہیں۔ اب یہ انتظار نہیں کیا جا سکتا کہ دوسرے پہلے قدم اٹھائیں۔ اب اس کے لیے کوئی وقت نہیں رہا۔ 

2۔ ہوشمندانہ کانفرنس 

رکن ممالک سے کہا جا رہا ہے کہ وہ مرحلہ وار کوئلے کا استعمال ختم کر دیں۔
©Unsplash/Dominik Vanyi
رکن ممالک سے کہا جا رہا ہے کہ وہ مرحلہ وار کوئلے کا استعمال ختم کر دیں۔

جب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے گزشتہ سال دسمبر میں اس عالمی کانفرنس کا اعلان کیا تو انہوں ںے کہا تھا کہ انہیں توقع ہے کہ یہ ایک ہوشمندانہ کانفرنس ہو گی جس میں کسی کو رعایت دی جائے گی اور نہ ہی کسی معاملے پر مصلحت سے کام لیا جائے گا۔ 

انہوں ںے کہا کہ وعدوں سے پھرنے والوں، دکھاوے کے اقدامات کرنے والوں، دوسروں پر الزام دھرنے والوں یا گزشتہ برسوں کے وعدوں کو نئی صورت دینے والوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہو گی۔ 

ممالک، اثرورسوخ رکھنے والوں اور رہنماؤں کی بڑھتی ہوئی تعداد اس ضمن عملی اقدامات کر رہی ہے۔ 2015 سے اب تک ایسے ممالک کی تعداد میں دو گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے جنہوں نے قومی سطح پر قدرتی آفات سے لاحق خطرات کو کم کرنے کے لیے حکمت عملی اختیار اور نافذ کی ہے۔ بہت سے ممالک نے سیکرٹری جنرل کے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے اقدامات کی رفتار تیز کرنےکے ایجنڈے جیسے اقدامات میں شمولیت اختیار کی ہے۔ 

اس ایجنڈے کی شروعات رواں سال کے آغاز میں ہوئی تھی جو حکومتوں، کاروباروں اور مالیاتی اداروں کو موسمیاتی حوالے سے خطرناک حدود کو پار کرنے سے روکنے اور اس مسئلے سے بری طرح متاثر ہونے والوں کے لیے انصاف کی فراہمی کی غرض سے رواں سال میں درکار اقدامات طے کرتا ہے۔

اس میں ممالک سے اپنی کوششوں میں تیزی لانے، کوئلے سے توانائی کے حصول کے نئے منصوبے شروع نہ کرنے اور اس کے استعمال کو بتدریج ختم کرنے نیز گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج پر قابو پانے کے حوالے سے 'نیٹ زیرو' ہدف کے حصول پر بھی زور دیا گیا ہے۔ 

'نیٹ زیرو' کاربن کے فضا میں اخراج اور فضا سے اس کے خاتمے کے مابین توازن لانے کا نام ہے۔

سائنس سے واضح طور پر ثابت ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے بدترین اثرات سے بچنے اور کرہ ارض پر زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے عالمی حدت میں اضافے کو قبل از صنعتی دور کی سطح کے مقابلے میں 1.5 ڈگری سیلسیئس کی حد میں رکھنا ضروری ہے۔ 

3۔ ماحول دوست عزائم 

نیجر میں ایک شخص شمسی توانائی کے پینل کی صفائی کر رہا ہے۔
© UNCDF/Adam Rogers
نیجر میں ایک شخص شمسی توانائی کے پینل کی صفائی کر رہا ہے۔

حکومتی رہنما اور خاص طور پر سب سے زیادہ گرین ہاؤس گیسیں خارج کرنے والے ممالک کے رہنماؤں سے توقع ہے کہ وہ اس معاملے میں اپنے اقدامات سے آگاہ کریں گے۔ 

یہ رہنما بتائیں گے کہ موسمیاتی تبدیلی پر میثاقِ پیرس جیسے تاریخی معاہدوں میں کیے گئے وعدوں پر عملدرآمد کے اعتبار سے وہ کہاں کھڑے ہیں۔ 

علاوہ ازیں اس موقع پر عملی مںصوبے پیش کیے جانے کی بھی توقع ہے جنہیں قومی سطح پر طے شدہ حصے (این ڈی سی) بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں گرین کلائمیٹ فنڈ کے لیے وعدوں سے متعلق نیٹ زیرو اہداف بھی شامل ہیں جن سے ترقی پذیر ممالک کو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے اور موسمیاتی تبدیلی کے مقابل مضبوطی پیدا کرنے کے لیے اپنے منصوبوں کو آگے بڑھانے اور انہیں عملی جامہ پہنانے میں مدد ملے گی۔ 

گرین ہاؤس گیسیں خارج کرنے والے تمام بڑے ممالک اور خاص طور پر جی20 حکومتوں سے کہا جائے گا کہ وہ 2025 تک اپنی پوری معیشت پر محیط مزید پُرعزم اقدامات سے متعلق منصوبے پیش کرنے کا وعدہ کریں جن میں گرین ہاؤس سمیت ماحول کو آلودہ کرنے والی تمام گیسوں کے اخراج میں مطلق کمی لانا بھی شامل ہو۔ 

4۔ دکھاوے کے اقدامات کو الوداع 

دنیا کے کئی دوسرے حصوں کی طرح جنوبی سوڈان میں بھی موسمیاتی تبدیلی کے باعث سیلاب اور دوسری شدید موسمی آفات دیکھنے کو مل رہی ہیں۔
UNMISS/Gregório Cunha
دنیا کے کئی دوسرے حصوں کی طرح جنوبی سوڈان میں بھی موسمیاتی تبدیلی کے باعث سیلاب اور دوسری شدید موسمی آفات دیکھنے کو مل رہی ہیں۔

کاروباروں، شہروں، خطوں اور مالیاتی اداروں سے توقع رکھی جائے گی کہ وہ اقوام متحدہ کی سرپرستی میں وضع کردہ قابل اعتماد معیارات کی مطابقت سے ماحول دوست توانائی کی جانب منتقلی کے منصوبے پیش کریں۔ یہ معیارات اقوام متحدہ کی 'دیانت دارانہ معاملات' سے متعلق رپورٹ میں دیے گئے ہیں۔ 

رضاکارانہ طور پر نیٹ زیرو کے ہدف کے حصول کے وعدوں سے متعلق یہ معیارات ایسا واحد معیاری اصول ہیں جو عالمی حدت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیئس تک محدود رکھنے کے ہدف سے پوری طرح ہم آہنگ ہیں۔ 

یہ رپورٹ دیگر معاملات کے علاوہ معدنی ایندھن کا استعمال روکنے اور اس کا بتدریج خاتمہ کرنے، گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے اور سائنس کی بنیاد پر موسمیاتی اقدامات کی کھلی وکالت کا عزم کرنے پر بھی زور دیتی ہے۔ 

5۔ موسمیاتی انصاف کی فوری ضرورت 

کرباتی جیسے چھوٹے ممالک کو اکثر موسمیاتی تبدیلی کے سنگین اثرات کا سامنا رہتا ہے۔
© UNICEF/Vlad Sokhin
کرباتی جیسے چھوٹے ممالک کو اکثر موسمیاتی تبدیلی کے سنگین اثرات کا سامنا رہتا ہے۔

موسمیاتی انصاف کا حصول ہدف ہے۔ اس کامطلب دنیا کے ان ممالک کو مدد دینا ہے جن کا آلودگی پھیلانے میں بہت کم کردار ہے لیکن وہ سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والے ملکوں خصوصاً جی 20 ممالک کے افعال کے منفی نتائج کا خطرناک ترین بوجھ اٹھاتے ہیں۔ 

کانفرنس کے شرکا سب سے زیادہ گرین ہاؤس گیسیں خارج کرنے والے شعبوں سے کاربن کا اخراج ختم کرنے کی رفتار میں تیزی لانے کی راہ میں حائل مسائل اور اس ضمن میں دستیاب مواقع پر بات چیت کریں گے۔ ان میں توانائی، جہاز رانی، ہوابازی، سٹیل اور سیمنٹ کے شعبے شامل ہیں۔ 

شرکا سے موسمیاتی انصاف ممکن بنانے کے منصوبے سامنے لائے جانےکی بھی توقع ہے۔ 

اس میں 2027 تک زیادہ سے زیادہ لوگوں کو موسمیاتی آفات سے بچانا اور 2025 تک ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے مطابق پیدا کرنے کے لیے مہیا کیے جانے والے مالی وسائل کی مقدار کو دو گنا بڑھانا بھی شامل ہے۔

کانفرنس کے موقع پر نقصان اور تباہی کے حوالے سے نئے فنڈ کا آغاز بھی ہو گا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا ایسا مالیاتی بندوبست ہے جس کے ذریعے موسمیاتی اعتبار سے غیرمحفوظ ممالک کی مدد کی جائے گی۔ یہ فنڈ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اقوام متحدہ کے کنونشن کے فریقین کی گزشتہ برس ہونے والی کانفرنس (کاپ 27) کا اہم ترین نتیجہ تھا۔ 

1.5 ڈگری سیلسیئس کا ہدف کیوں اہم ہے؟

پیرس معاہدے میں ممالک کو پابند کیاگیا ہے کہ وہ عالمی حدت میں اضافے کو قبل از صنعتی دور کے مقابلے میں 2 ڈگری سیلسیئس کی حد سے نیچے رکھیں گے اور اسے مزید کم کرتے ہوئے 1.5 ڈگری سیلسیئس تک لائیں گے۔ 

موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کے بین الحکومتی پینل (آئی پی سی سی) کے مطابق 1.5 ڈگری سیلسیئس اور 2 ڈگری سیلسیئس میں فرق درج ذیل ہے: 

  • کورل ریف کا 70 فیصد یا 99 فیصد خاتمہ
  • اہم زیرگی کنندہ حشرات کے نصف مساکن کے خاتمے کے امکان میں دو گنا اضافہ 
  • قطب شمالی میں موسم گرما کے دوران برف کا خاتمہ، صدی میں ایک مرتبہ یا فی دہائی ایک مرتبہ 
  • سطح سمندر میں مزید ایک میٹر اضافہ 
  • 21ویں صدی کے اختتام تک ساحلی علاقوں میں سطح سمندر میں اضافے سے متاثرہ لوگوں کی تعداد 6 ملین یا 16 ملین