انسانی کہانیاں عالمی تناظر

موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے امیر اور غریب ممالک میں معاہدہ وقت کی ضرورت: گوتیرش

''انسانیت کو تعاون یا تباہی میں سے ایک انتخاب کرنا ہے: سیکرٹڑی جنرل انتونیو گوتیرش
UNIC Tokyo/Momoko Sato
''انسانیت کو تعاون یا تباہی میں سے ایک انتخاب کرنا ہے: سیکرٹڑی جنرل انتونیو گوتیرش

موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے امیر اور غریب ممالک میں معاہدہ وقت کی ضرورت: گوتیرش

موسم اور ماحول

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ امیر اور ترقی پذیر ممالک کے مابین ایک معاہدے کی ضرورت ہے تاکہ صلاحیتوں کو یکجا کرنے اور کاربن کے اخراج میں کمی لانے، توانائی کے نظام تبدیل کرنے اور موسمیاتی تباہی سے بچنے کے لیے دنیا کو ایک جگہ اکٹھا کیا جا سکے۔

انہوں نے یہ بات مصر کے شہر شرم الشیخ میں کاپ 27 کے موقع پر موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے اقدامات پر عملدرآمد سے متعلق دو روزہ کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں کہی۔ کانفرنس میں تمام مندوبین پر مشتمل پہلے باقاعدہ اجلاس میں جمع ہونے والے دنیا کے 100 سے زیادہ رہنماؤں سے خطاب کرتے ہوئے سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ ''انسانیت کو تعاون یا تباہی میں سے ایک انتخاب کرنا ہے۔ یا تو ہمیں موسمیاتی مسائل سے نمٹنے کے لیے یکجہتی کا معاہدہ کرنا ہو گا یا ہم اجتماعی خودکشی کا معاہدہ کر رہے ہوں گے۔

مجوزہ معاہدے میں تمام ممالک کاربن کے اخراج میں کمی لانے، دولت مند ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے ترقی پذیر معیشتوں کو امداد فراہم کرنے، معدنی ایندھن پر انحصار اور کوئلے سے توانائی پیدا کرنے کے پلانٹ ختم کرنے، تمام لوگوں کے لیے پائیدار توانائی فراہم کرنے اور انسانیت کے فائدے کے لیے حکمت عملی اور صلاحیتوں کو یکجا کرنے کی خاطر متحد ہونے کے لیے اضافی کوششیں کریں گے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ''دو سب سے بڑی معیشتوں یعنی امریکہ اور چین کی خاص ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاہدے کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے باہم مل کر کوششیں کریں۔ موسمیاتی اہداف حاصل کرنے کے لیے یہی ہماری واحد امید ہے۔''

گوتیرش نے کہا کہ بہت جلد انسانی آبادی 8 ارب ہو جائے گی اور کاپ 27 کو اسی سنگ میل کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔  

ان کا کہنا تھا کہ جب 8 ارب واں بچہ یہ پوچھنے کے قابل ہو جائے گا کہ ''آپ نے ہماری دنیا اور ہماری زمین کے لیے کیا کچھ کیا جبکہ آپ کے پاس ایسا کرنے کا موقع بھی تھا؟'' تو ہم کیا جواب دیں گے؟''

سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش کاپ 27 کے سربراہی اجلاس سے خطاب کر رہے ہیں۔
UNIC Tokyo/Momoko Sato
سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش کاپ 27 کے سربراہی اجلاس سے خطاب کر رہے ہیں۔

یوکرین کی جنگ سے مختلف نوعیت کا بحران

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اجلاس کے شرکا کو یاد دلایا کہ وقت گزر رہا ہے اور ہماری زمین تیزی سے ایسے حالات کی جانب جا رہی ہے جو ''موسمیاتی ابتری'' کو ناقابل اصلاح بنا دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ''ہم موسمیاتی جہنم کی جانب جانے والی شاہراہ پر تیزرفتار سے گامزن ہیں۔''

انہوں ںے مزید کہا کہ اگرچہ یوکرین میں جاری جنگ اور دیگر مسلح تنازعات بہت زیادہ خونزیزی اور تشدد کا باعث بنے ہیں اور انہوں نے دنیا بھر میں غیرمعمولی اثرات مرتب کیے ہیں لیکن اقوام متحدہ کو یہ قبول نہیں کہ ہم موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے کو نظرانداز کر دیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ ''یہ ہمارے دور کا فیصلہ کن مسئلہ ہے۔ یہ ہماری صدی کا مرکزی مسئلہ ہے۔ اسے ثانوی اہمیت دینا ناقابل قبول، ظالمانہ اور خود شکستگی ہے۔''

سیکرٹری جنرل نے واضح کیا کہ دور حاضر کے بہت سے تنازعات کا تعلق 'بڑھتی ہوئی موسمیاتی ابتری' سے ہے۔''

انہوں نے کہا کہ ''یوکرین میں جاری جنگ نے معدنی ایندھن پر ہمارے انحصار میں پوشیدہ شدید خطرات کو آشکار کر دیا ہے۔ آج فوری توجہ کا متقاضی بحران واپس پلٹنے یا ظاہری اقدامات کے لیے بہانہ نہیں بن سکتا۔ یہ بحران موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی ہنگامی ضرورت، مضبوط اقدامات اور موثر احتساب کی ضرورت کو واضح کرتے ہیں۔''

ہوا سے چلنے والی ٹربائن توانائی کے قابل تجدید ذرائع کا ایک اہم جزو ہیں اور کاربن کے نیٹ زیرو اخراج کے ہدف کے حصول میں کارآمد ہیں۔
Unsplash/Appolinary Kalashnikova
ہوا سے چلنے والی ٹربائن توانائی کے قابل تجدید ذرائع کا ایک اہم جزو ہیں اور کاربن کے نیٹ زیرو اخراج کے ہدف کے حصول میں کارآمد ہیں۔

تیل کمپنیوں پر ٹیکس لگائیں

گوتیرش نے حکومتوں سے کہا کہ وہ وبا ءکے نتیجے میں بھاری منافع کمانے والی معدنی ایندھن کی کمپنیوں پر ٹیکس عائد کریں اور اس سے حاصل ہونے والی رقم خوراک اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے کے باعث مشکلات کا شکار لوگوں اور موسمیاتی بحران کے نتیجے میں نقصان اٹھانے والے ممالک کو دیں۔

انہوں نے کہا کہ ''موسمیاتی تبدیلی کے مہلک اثرات اس وقت ہمارے سامنے آ چکے ہیں۔ نقصان اور اس سے ازالے کے معاملے کو اب نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک اخلاقی لازمہ ہے۔ یہ عالمگیر یکجہتی اور موسمیاتی انصاف سے متعلق بنیادی سوال ہے۔ جن لوگوں کا موسمیاتی بحران پیدا کرنے میں بہت کم کردار ہے وہ دوسروں کے پیدا کردہ مسئلے کے اثرات بھگت رہے ہیں۔

سیکرٹری جنرل نے قرار دیا کہ نقصان اور ازالے کے معاملے میں ٹھوس نتائج کا حصول حکومتوں کی جانب سے کاپ 27 کی کامیابی کے عزم کا 'امتحان' ہو گا۔

Soundcloud

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے مطابقت

سیکرٹری جنرل نے مستقبل میں موسمیاتی ابتری کے اثرات سے مطابقت پیدا کرنے اور ان سے نمٹنے کی صلاحیت حاصل کرنے کے لیے پیش رفت پر بھی زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ساڑھے تین ارب افراد ایسے ممالک میں رہتے ہیں جو موسمیاتی اثرات کے مقابل انتہائی غیرمحفوظ ہیں۔

اس کا مطلب ممالک کی جانب سے موسمی اثرات سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے 2025 تک 40 ارب ڈالر مہیا کرنے سے متعلق گزشتہ برس کاپ 26 میں کیے جانے والے وعدوں کی تکمیل ہے۔

انہوں نے کہا کہ ''ہمیں اس وعدے کی تکمیل کے لیے لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔ ہمیں ماننا ہو گا کہ یہ اس جانب محض پہلا قدم ہے۔ مطابقت پیدا کرنے سے متعلق ضروریات 2030 تک 300 ارب ڈالر سالانہ سے تجاوز کر جائیں گی۔

انہوں ںے مزید کہا کہ اس حوالے سے عالمی مالیاتی اداروں اور بینکوں کو بھی اپنے کاروباری نمونے تبدیل کرنا ہوں گے اور اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہو گا۔

متحدہ ہونے کا وقت

سیکرٹری جنرل نے ممالک پر زور دیا کہ وہ عملدرآمدی اقدامات کے لیے متحد ہو جائیں اور یہ دنیا بھر کے ممالک کے لیے بین الاقوامی سطح پر یکجہتی پیدا کرنے کا وقت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ''یہ ایسی یکجہتی ہونی چاہیے جس میں تمام انسانی حقوق کا احترام ہو اور ماحولیاتی محافظوں اور معاشرے کے تمام کرداروں کو تحفظ اور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے اقدام میں اپنا کردار ادا کرنے کی ضمانت ملے۔''

گوتیرش نے واضح کیا کہ موسمیاتی مسئلے پر عالمگیر جنگ اسی اہم دہائی میں جیتی یا ہاری جائے گی اور یہ سب کچھ موجودہ عالمی رہنماؤں کی نگاہوں کے سامنے ہو گا۔

اپنی بات کا اختتام کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ''ایک بات یقینی ہے کہ جو لوگ اس جدوجہد میں پیچھے ہٹ جائیں گے وہ یقینی طور پر ہار جائیں گے۔ لہٰذا آئیے انسانی خاندان کے 8 ارب ارکان اور آنے والی نسلوں کے لیے مل کر جدوجہد کریں اور فتح پائیں۔''

موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے منصوبوں پر عملدرآمد سے متعلق کانفرنس میں سوموار کو 40 سے زیادہ سربراہان مملکت خطاب کریں گے جن میں فرانس، کولمبیا، جمہوریہ کانگو، امریکہ اور اسرائیل کے سربراہ بھی شامل ہیں جبکہ منگل کو کانفرنس میں 100 سے زیادہ عالمی رہنما اپنی بات کریں گے۔

اگرچہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن کانفرنس میں شریک نہیں ہوں گے تاہم وہ آئندہ ہفتے کاپ 27 میں آئیں گے۔ اب تک نہ تو چین اور نہ ہی روس کے صدر کی جانب سے خطاب کی توقع ہے۔ یوکرین کے صدر ولاڈیمیر زیلنسکی کانفرنس میں اپنا ویڈیو پیغام بھیجیں گے۔