انسانی کہانیاں عالمی تناظر

مہاسا امینی کی برسی پر ایران میں خواتین پر جبر میں اضافہ

اسلامی جمہوریہ ایران کے حوالے سے حقائق کی تلاش کرنے والے غیرجانبدار مشن کی سربراہ سارا حسین نے کہا ہے کہ جینا مہاسا کو گرفتار ہی نہیں کیا جانا چاہیے تھا (فائل فوٹو)۔
UN Photo/Violaine Martin
اسلامی جمہوریہ ایران کے حوالے سے حقائق کی تلاش کرنے والے غیرجانبدار مشن کی سربراہ سارا حسین نے کہا ہے کہ جینا مہاسا کو گرفتار ہی نہیں کیا جانا چاہیے تھا (فائل فوٹو)۔

مہاسا امینی کی برسی پر ایران میں خواتین پر جبر میں اضافہ

انسانی حقوق

ایران میں 22 سالہ جینا مہاسا امینی کی پولیس حراست میں موت کے نتیجے میں ملک بھر میں شروع ہونے والے مظاہروں کو ایک سال مکمل ہونے کے بعد ریاستی سطح پر خواتین اور لڑکیوں کو ہراساں کیے جانے کا سلسلہ عروج پر ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے حوالے سے حقائق کی تلاش کرنے والے غیرجانبدار مشن نے اس حوالے سے متنبہ کیا ہے کہ حکام مذہبی آزادی، اظہار اور پُرامن اجتماع کی آزادی سمیت اپنے بنیادی حقوق سے کام لینے والوں کے خلاف تادیبی اقدامات اٹھا رہے ہیں۔

13 ستمبر 2022 کو جینا مہاسا کو اخلاقی پولیس نے حجاب کے لازمی قانون کی مبینہ خلاف ورزی کرنے پر گرفتار کیا تھا۔ وہ 16 ستمبر کو دوران حراست انتقال کر گئی تھیں۔

مہاسا امینی کی موت کے بعد ملک بھر میں احتجاج کی لہر اٹھی۔

احتجاج کو دبانے کی پالیسی

موصولہ اطلاعات کے مطابق ریاست نے احتجاج کرنے والوں کے خلاف غیرضروری اور غیرمتناسب طاقت استعمال کی، لوگوں کو ناجائز طور پر گرفتار کر کے قید میں ڈالا، ناجائز مقدمات چلائے، لوگوں کو ماورائے عدالت ہلاک اور متاثرین کے اہلخانہ کو ہراساں کیا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ حقائق تلاش کرنے کا مشن ان اطلاعات کی تصدیق کر رہا ہے۔

مشن کی سربراہ سارا حسین کا کہنا ہے کہ جینا مہاسا کو گرفتار ہی نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پولیس کی حراست میں جینا مہاسا کی موت کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت ان کے خاندان یا دیگر متاثرین، خواتین، لڑکیوں اور ان تمام مظاہرین کے خاندانوں کے لیے سچائی، انصاف اور ازالہ یقینی بنانے میں ناکام رہی جن کے بنیادی انسانی حقوق پامال کیے گئے ہیں۔

 سارا حسین نے کہا کہ اس کے بجائے حکومت اپنے شہریوں پر جبر اور ان کے خلاف انتقامی کارروائیوں میں اضافہ کر رہی ہے اور ایسے نئے اور مزید ظالمانہ قوانین متعارف کرانا چاہتی ہے جو خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کو سختی سے مزید محدود کرتے ہیں۔

حکومتی دعوے

 ایرانی حکام کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے جینا مہاسا کی ہلاکت کی تحقیقات مکمل کر لی ہیں جس کی رو سے ان کی موت سر پر یا جسم پر چوٹ لگنے کے باعث نہیں بلکہ بیماری کے سبب ہوئی۔

تاہم اقوام متحدہ کے مشن کا کہنا ہے کہ حکومت کی تحقیقات انسانی حقوق کے حوالے سے بین الاقوامی اصولوں اور معیارات کے علاوہ آزادانہ و شفاف تحقیقات کے تقاضوں پر بھی پورا نہیں اترتیں۔

دھونس اور جبر

جینا مہاسا کی موت کی پہلی برسی سے پہلے حکام نے احتجاج کرنے والے لوگوں کے خاندان کے ارکان بشمول بچوں کو ہراساں کرنے اور انہیں دھمکانے کے اقدامات میں اضافہ کر دیا۔ اطلاعات کے مطابق حالیہ ہفتوں کے دوران ان لوگوں کے درجنوں اہلخانہ بشمول مظاہروں میں ہلاک ہونے والے اپنے عزیزوں کے لیے کھلے عام دکھ کا اظہار کرنے اور سچائی و انصاف کے حصول کی کوشش کرنے والوں کو بھی گرفتار کیا گیا یا پوچھ گچھ کے لیے بلایا گیا ہے۔

انتہائی پریشان کن امر یہ ہے کہ ایسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں جن کے مطابق حکام نے جینا مہاسا کے خاندان کو دھمکایا اور ہراساں کیا جن میں ان کے والد احمجاد امینی بھی شامل ہیں۔ اس کا مقصد خاندان کو ان کی موت کا غم منانے سے روکنا ہے۔ سکیورٹی فورسز نے جینا مہاسا کے چچا صفا عیلی کو 5 ستمبر کو سقز سے گرفتار کیا گیا اور ان کے بارے میں تاحال کوئی اطلاع سامنے نہیں آئی۔ اطلاعات کے مطابق کم از کم دو مواقع پر جینا مہاسا کی قبر کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔

ایرانی حکومت کا عدم تعاون

حقائق تلاش کرنے والے مشن نے اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اس کی تحقیقات میں پوری طرح تعاون کرے اور یقینی بنائے کہ تمام متاثرین کو اپنے حق میں شہادتوں تک بلارکاوٹ اور محفوظ رسائی ہو جس میں ان کے مقدمات کو حقائق کی تلاش کرنے والے مشن کو بھیجنا بھی شامل ہے۔

حکومت نے مشن کی جانب سے اطلاعات فراہم کرنے کی متواتر درخواستوں کا تاحال کوئی جواب نہیں دیا۔ مشن مارچ 2024 میں ایک متعامل ڈائیلاگ کے موقع پر انسانی حقوق کونسل کو اپنی جامع رپورٹ پیش کرے گا۔