مہاسا امینی ہلاکت پر احتجاج کے خلاف ایران میں دو سال سے جبر کا راج
اقوام متحدہ کے غیرجانبدار تفتیش کاروں نے بتایا ہے کہ ایران میں جینا مہاسا امینی کی پولیس حراست میں ہلاکت کے بعد مظاہروں کو کچلنے کی کارروائیوں میں 551 افراد کو ہلاک کیا گیا۔
ایران کے حوالے سے حقائق جانچنے کے بین الاقوامی مشن نے جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کو بتایا ہے کہ ستمبر 2022 میں مہاسا امینی کی ہلاکت غیرقانونی اور جسمانی تشدد کا نتیجہ تھی جس کی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے۔
کمیشن کی چیئرپرسن سارہ حسین کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بعد ملک بھر میں مظاہرے شروع ہو گئے جن میں نوجوان خواتین اور سکولوں کے بچوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ مظاہروں کو کچلنے کے لیے تمام سرکاری مشینری حرکت میں آئی اور اس دوران سکیورٹی فورسز نے اے کے-47 رائفلوں اور بعض جگہوں پر اوزی گن کا استعمال بھی کیا جس سے لوگ ہلاک و زخمی ہوئے۔
خواتین کی 'بغاوت'
مصدقہ اطلاعات کے مطابق مظاہروں کے دوران ہلاک ہونے والوں میں 49 خواتین اور 68 بچے بھی شامل ہیں۔ یہ واقعات ملک کے 31 میں سے 26 صوبوں میں کئی ماہ کے دوران پیش آئے۔
مشن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مظاہروں میں شریک بہت سی خواتین نے طویل عرصہ سے لاگو امتیازی قوانین اور اقدامات کے خلاف بطور احتجاج عوامی مقامات پر حجاب اتار دیے۔
مردوں اور لڑکوں نے بھی خواتین کے ساتھ یکجہتی کے لیے احتجاج میں حصہ لیا جبکہ اقلیتی گروہوں کے لوگ بھی انصاف کا مطالبہ لے کر ان مظاہروں میں شریک ہوئے۔
شہادتوں کے حصول میں دشواری
مشن نے بتایا کہ 30 ستمبر 2022 کو زاہدان شہر میں 'خونی جمعہ' بھی کہا جاتا ہے جہاں اس روز سکیورٹی فورسز نے 104 مظاہرین اور راہگیروں کو ہلاک کیا جن میں بڑی تعداد مردوں اور لڑکوں کی تھی۔ ایران کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ مظاہرین کے ہاتھوں 54 سکیورٹی اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔
مشن نے ملک میں رسائی کی اجازت نہ ملنے اور حکومت کی جانب سے عدم تعاون جیسے متعدد مسائل کے باوجود 27 ہزار شہادتیں اکٹھی کیں۔
اس کام کے دوران اندرون و بیرون ملک مقیم 134 متاثرین اور گواہوں سے تفصیلی بات چیت کی گئی جن میں 49 خواتین اور 85 مرد شامل تھے۔ علاوہ ازیں، ڈیجیٹل اور طبی فارنزک ماہرین سمیت ملکی و بین الاقوامی قانون پر دسترس رکھنے والوں سے بھی شہادتیں اور تجزیے لیے گئے۔
بچوں کو پھانسی
ایران میں حقوق کی صورتحال پر اقوام متحدہ کے خصوصی اطلاع کار جاوید رحمان نے بھی انسانی حقوق کونسل کو اپنی رپورٹ پیش کی ہے۔
انہوں نے حقوق کی سنگین پامالیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ ایران میں سزائے موت اور پھانسیوں میں اضافہ ہو گیا ہے جبکہ بچوں کو بھی یہ سزا دی جا رہی ہے۔ گزشتہ برس ایران میں 834 افراد کو موت کی سزا دی گئی جو کہ 2022 کے مقابلے میں 43 فیصد زیادہ ہے۔ ایسی بیشتر سزائیں منشیات سے متعلق جرائم پر دی گئیں۔
جاوید رحمان نے کہا کہ خصوصی اطلاع کار کی حیثیت سے ان کی چھ سالہ مدت ختم ہونے کو ہے اور اس عرصہ میں متواتر درخواستوں کے باوجود انہیں کبھی ملک میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔
انہوں نے نسلی و مذہبی اقلیتوں پر جبر، انہیں ہراساں کرنے اور انسانی حقوق کے محافظوں، صحافیوں اور مزدور تنظیموں کے ارکان کو حراست میں لیے جانے پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔
مصنوعی ذہانت کا خوفناک استعمال
سارہ حسین نے کونسل کو بتایا کہ مشن کو ایرانی ریاست کی جانب سے مصنوعی ذہانت کے استعمال کے بارے میں خوفناک اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ ان میں نئی موبائل ایپلی کیشنز سمیت متعدد طریقوں سے خواتین اور لڑکیوں کی نگرانی اور ان سے لازمی حجاب اوڑھنے کے قانون پر جبراً عملدرآمد کرانا بھی شامل ہے۔
خصوصی اطلاع کار نے حجاب نہ لینے والی خواتین کی گاڑیاں ضبط کرنے اور انہیں کوڑے مارنے یا دیگر کڑی سزائیں دینے جیسے ظالمانہ اقدامات کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ماہرین و خصوصی اطلاع کار
غیرجانبدار ماہرین یا خصوصی اطلاع کار اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے خصوصی طریقہ کار کے تحت مقرر کیے جاتے ہیں جو اقوام متحدہ کے عملے کا حصہ نہیں ہوتے اور اپنے کام کا معاوضہ بھی وصول نہیں کرتے۔