ایران گرفتار ہزاروں پُرامن مظاہرین کو رہا کرے
اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے دفتر 'او ایچ سی ایچ آر' نے ایران کے اُن ہزاروں شہریوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے جنہیں دو ماہ قبل حجاب کے کڑے قوانین توڑنے والے مھاسا امین نامی خاتون کی دوران حراست ہلاکت کے بعد حکومت کے خلاف پُرامن احتجاج کرنے پر گرفتار کیا گیا ہے۔
او ایچ سی ایچ آر کے ترجمان جیریمی لارنس نے جنیوا میں صحافیوں کو بتایا کہ 8 نومبر کو ایران کے پراسیکیوٹر نے کہا تھا کہ صرف صوبہ تہران میں ہی ایک ہزار سے زیادہ مظاہرین پر فرد جرم عائد کی گئی ہے جبکہ دارالحکومت سے باہر بھی ایسے افراد کی تعداد ہزاروں میں ہے۔
🇮🇷 #Iran: We urge Iranian authorities to release thousands of peaceful protesters, revoke death sentences issued for crimes not qualifying as the most serious crimes and to impose a moratorium on the death penalty: https://t.co/vJ46UEJ3NY https://t.co/7iaXPS2S3s
UNHumanRights
مظاہرین کو فوری رہا کیا جائے
انہوں نے کہا کہ ''ہم حکام پر زور دیتے ہیں کہ وہ پُرامن مظاہرے کرنے پر گرفتار کیے جانے والے تمام افراد کو فوری رہا کریں اور ان کے خلاف الزامات واپس لیے جائیں۔ انسانی حقوق کا قانون لوگوں کے پُرامن اجتماع اور آزادی اظہار کے حقوق کو تحفظ دیتا ہے۔''
ان کا کہنا تھا کہ حکام نے لوگوں کی جائز شکایات سننے کے لیے بات چیت کی راہ اپنانے کے بجائے مھاسا امینی کی پولیس حراست میں موت سے شروع ہونے والے بے مثل مظاہروں کا جواب سختی سے دیا جس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
موت کی سزائیں
اتوار کو تہران میں اسلامی انقلابی عدالت نے احتجاج کرنے والے ایک شخص کو سزائے موت دی جس کے بعد جوابی الزامات ایک نئی سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ عدالت نے سزا پانے والے نامعلوم شخص کو محاربہ یا ''خدا کے خلاف جنگ'' اور مبینہ طور پر سرکاری املاک کو نقصان پہنچا کر 'زمین پر فساد پھیلانے' کے جرم کا مرتکب قرار دیا۔
او ایچ سی ایچ آر کے مطابق کم از کم نو دیگر مظاہرین کو بھی ایسے جرائم کا مرتکب ٹھہرایا گیا ہے جن کی ایران میں سزا موت ہے۔
لارنس کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی قانون کے تحت جن ممالک نے تاحال سزائے موت کو ختم نہیں کیا وہ صرف ''انتہائی سنگین جرائم'' کے ارتکاب پر ہی اس سزا کا نفاذ کر سکتے ہیں۔ انتہائی شدید نوعیت کے ان افعال میں قتل کا جرم بھی شامل ہے۔
غیرمتناسب سزائیں
انہوں نے مزید کہا کہ ''جن جرائم میں براہ راست یا ارادی قتل شامل نہ ہو ان کے ارتکاب پر موت کی سزا نہیں دی جا سکتی۔''
اطلاعات کے مطابق یہ مظاہرے ایران کے کم از کم 140 قصبوں اور شہروں میں پھیل گئے ہیں اور مظاہرین کے خلاف پُرتشدد کارروائیوں کے دوران 300 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں 40 سے زیادہ بچے اور دو درجن سے زیادہ خواتین بھی شامل ہیں۔
او ایچ سی ایچ آر کے ترجمان نے ایران سےکہا ہے کہ وہ ''سزائے موت کو فوری طور پر ملتوی کرے، مظاہرین کو سنگین ترین جرائم کا مرتکب قرار دینے سے پرہیز کرے اور ایسے جرائم پر دی جانے والی موت کی سزاؤں کو واپس لے جو انتہائی سنگین جرم کی ذیل میں نہیں آتے۔''