انسانی کہانیاں عالمی تناظر

ایران: انسانیت کے خلاف بلا احتساب ممکنہ جرائم

ایران کے دارالحکومت تہران کا فضائی منظر
© Unsplash/Mahyar Motebassem
ایران کے دارالحکومت تہران کا فضائی منظر

ایران: انسانیت کے خلاف بلا احتساب ممکنہ جرائم

انسانی حقوق

ایران میں انسانی حقوق کی صورتحال پر اقوام متحدہ کے خصوصی اطلاع کار جاوید رحمان نے کہا ہے کہ ''ایران میں چار دہائیوں میں انسانی حقوق کی سنگین ترین پامالیوں کا ارتکاب'' 16 ستمبر 2022 کو پولیس حراست میں جینا مہاسا امینی کی موت کے بعد ہوا ہے۔

انسانی حقوق کونسل کو اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے جاوید رحمان کا کہنا تھا کہ ایران کے حکام کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ''شدت اور سنگینی'' بین الاقوامی جرائم کے ممکنہ کمیشن کی تشکیل کی ضرورت کو واضح کرتی ہے۔ انسانیت کے خلاف ان جرائم میں قتل، قید، جبری گمشدگیاں، تشدد، جنسی زیادتی، جنسی تشدد اور مظالم خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

انہوں نے مہاسا امینی کی موت کی ''نام نہاد'' تحقیقات کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ تحقیقات ''نہ تو قابل اعتبار ہیں اور نہ ہی شفاف''۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس واقعے کے ذمہ داروں کا محاسبہ نہیں کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ مہاسا امینی کی موت کوئی منفرد واقعہ نہیں بلکہ ''ایران کے حکام کی جانب سے خواتین اور لڑکیوں کے خلاف شدید تشدد کے طویل سلسلے میں تازہ ترین اقدام ہے۔''

یہ رپورٹ جاوید رحمان سمیت انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے متعین کردہ متعدد غیرجانبدار ماہرین کے بیان کے بعد آئی ہے جس میں انہوں نے ''ایران کے بڑے شہروں میں ہونے والے گیس حملوں میں سکولوں کی 1,200 سے زیادہ طالبات کو دانستہ زہر دیے جانے'' اور ''ریاست کی جانب سے ان کی حفاظت میں ناکامی'' کی مذمت کی۔ جاوید رحمان نے اپنی نئی رپورٹ میں واضح کیا کہ ''تاحال حکومت نے ایسے حملوں سے انکار کیا ہے۔''

جاوید رحمان جیسے خصوصی اطلاع کار اور انسانی حقوق کونسل کے متعین کردہ دیگر ماہرین رضاکارانہ طور پر بلامعاوضہ کام کرتے ہیں۔ وہ اقوام متحدہ کے عملے کا حصہ نہیں ہوتے اور کسی حکومت یا تنظیم سے وابستگی کے بجائے آزادانہ طور پر کام کرتے ہیں۔

ایران میں مہاسا امینی کی نام نہاد ’اخلاقی پولیس‘ کی تحویل میں ہلاکت پر سوئیڈن میں مظاہرین انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
Unsplash/Artin Bakhan
ایران میں مہاسا امینی کی نام نہاد ’اخلاقی پولیس‘ کی تحویل میں ہلاکت پر سوئیڈن میں مظاہرین انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

بڑے پیمانے پر جبر

گزشتہ ستمبر سے شروع ہونے والے عوامی احتجاج کی لہر کے خلاف ایرانی حکام کے جبر پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کم از کم چار قیدیوں اور مزید 17 افراد کو ناجائز، سرسری اور جعلی قانونی کارروائی کے ذریعے سزائے موت دیے جانے پر غم و غصے کا اظہار کیا جس میں ملزموں پر تشدد کے الزامات بھی سامنے آئے۔ ان احتجاجی مظاہروں میں 71 بچوں سمیت 520 سے زیادہ لوگ ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔

مظاہرین کے خلاف حکام کی سخت کارروائی کی تفصیلات کے بارے میں بتاتے ہوئے جاوید رحمان نے کہا کہ ایران کی سکیورٹی فورسز نے غیرمسلح مظاہرین پر سیدھی گولیاں چلائیں اور بچوں سمیت بعض قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کیا۔

انہوں نے کہا کہ حکام نے حال ہی میں یہ تسلیم کیا ہے کہ 22 ہزار سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ایسے اقدامات کا مقصد انٹرنیٹ میں خلل سے لے کر سوشل میڈیا کی سنسرشپ تک ''آزادی اظہار کی تمام جگہوں'' کو بند کرنا ہے۔

سرکاری سطح پر انکار

جینیوا میں اقوام متحدہ کے دفتر میں ایران کے مستقل نمائندے علی بحرینی نے خصوصی نمائندے کی باتوں کا جواب دیتے ہوئے ان کی رپورٹ کو ''متعصبانہ'' قرار دے کر مسترد کیا اور کہا کہ کونسل کو ''سیاسی، رسوا کن اور دقیانوسی اقدامات سے فاصلہ اختیار کرنا چاہیے جن سے تقسیم اور نزاع ہی جنم لے گا۔'' انہو نے کہا کہ ''قتل کا ارتکاب کرنے والے قیدیوں اور ایسے لوگوں کے علاوہ سبھی کو رہا کیا جا چکا ہے جن کے خلاف انفرادی شکایات درج کرائی گئی ہیں۔'' 

احتساب کا مطالبہ

جاوید رحمان نے اپنے رپورٹ میں ''مقامی سطح پر احتساب کی غیرموجودگی'' کو واضح کیا اور کہا کہ وہ ''انسانی حقوق کی پامالیوں کے متاثرین کے لیے انصاف اور احتساب یقینی بنانے'' کے لیے نوتشکیل دہ بین الاقوامی طریقہ کار کے ساتھ تعاون کے منتظر ہیں۔