انسانی کہانیاں عالمی تناظر

روہنگیا مہاجرت کے چھ سال پر عالمی برادری سے مدد جاری رکھنے کی اپیل

بنگہ دیش کے کاکس بازار مپاجر کیمپ میں آگ لگنے کے بعد ایک روہنگیا خاندان کھلے آسمان تلے بیٹھا مدد کا منتظر ہے (فائل فوٹو)
© UNICEF/Rashad Wajahat Lateef
بنگہ دیش کے کاکس بازار مپاجر کیمپ میں آگ لگنے کے بعد ایک روہنگیا خاندان کھلے آسمان تلے بیٹھا مدد کا منتظر ہے (فائل فوٹو)

روہنگیا مہاجرت کے چھ سال پر عالمی برادری سے مدد جاری رکھنے کی اپیل

انسانی امداد

پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے 'یو این ایچ سی آر' نے عالمی برادری سے کہا ہے کہ وہ بنگلہ دیش میں تقریباً ایک ملین روہنگیا پناہ گزینوں کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کے عہد کی تجدید کرے تاکہ ان کے لیے امدادی اقدامات اور سیاسی مدد کو برقرار رکھا جا سکے۔

700,000 سے زیادہ مرد و خواتین اور بچوں کی میانمار سے بنگلہ دیش میں ہجرت کو اس ہفتے چھ سال مکمل ہو گئے ہیں۔ یہ تعداد ان ہزاروں روہنگیا افراد کے علاوہ ہے جو ان سے پہلے ہی بنگلہ دیش میں پناہ لیے ہوئے تھے۔

Tweet URL

دنیا کا سب سے بڑا کیمپ

بنگلہ دیش میں روہنگیا مہاجرین کا کیمپ دنیا میں پناہ گزینوں کی سب سے بڑی آبادی ہے جہاں انسانی حالات بدترین صورت اختیار کرنے کے بعد اس طویل بحران سے وابستہ مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔مالی وسائل میں متواتر قلت پیدا ہونے سے امدادی اداروں کو انتہائی اہم اور تحفظ زندگی کے لیے درکار ضروریات پر ہی توجہ مرکوز کرنا پڑ رہی ہے۔

اس صورتحال میں پہلی مرتبہ پناہ گزینوں کو دی جانے والی امداد میں کمی کی گئی ہے جس کے غیرمعمولی منفی نتائج کے بارے میں تشویش جنم لے رہی ہے جن میں بڑھتی ہوئی غذائی قلت، بچوں کے سکول چھوڑ دینے، کم عمری کی شادی، بچہ مزدوری اور صںفی بنیاد پر تشدد جیسے مسائل شامل ہیں۔ 

روہنگیا پناہ گزینوں نے اپنی قوت اور مضبوطی کے ساتھ گزشتہ چھ برس میں امدادی اقدامات میں اہمیت اختیار کر لی ہے اور انہوں نے اپنی میزبانی کرنے والے لوگوں کو بھی مدد مہیا کی ہے۔

ہنرمندی اور باوقار زندگی

یو این ایچ سی آر نے روہنگیا پناہ گزینوں کو تعلیم اور پیشہ وارانہ صلاحیتوں میں بہتری سے فائدہ اٹھانے کے قابل بنانے میں مدد دینے پر زور دیا ہے۔ اس میں پیشہ وارانہ تربیت اور اہلیتوں میں اضافے کے دیگر طریقے بھی شامل ہیں۔

اس سے ناصرف انہیں اپنے ملک میں واپس جا کر نئی زندگی شروع کرنے میں مدد ملے گی بلکہ بنگلہ دیش میں قیام کے دوران ان کے وقار، تحفظ اور افادیت کو بھی یقینی بنایا جا سکے گا۔ اس کی بدولت وہ اپنی بعض ضروریات خود پوری کرنے کے قابل بھی ہو جائیں گے کیونکہ پناہ گزین کم ہوتی انسانی امداد پر ہی انحصار نہیں کرنا چاہتے۔

روہنگیا پناہ گزینوں کی میانمار کی جانب باوقار اور مستحکم انداز میں واپسی ہی اس بحران کا بنیادی حل ہے، اور ان کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت میانمار واپس جانا چاہیں گے جب وہ محفوظ اور رضاکارانہ طور پر واپسی کے قابل ہوں۔ 

بنگلہ دیش میں یو این ایچ سی آر کے لیے پناہ گزینوں کے فیصلوں کا کسی دباؤ یا غلط اطلاعات کے بغیر غیرجانبدارانہ جائزہ لینا بھی اتنا ہی اہم ہے۔

طوفان موکا سے متاثرہ بنگلہ دیش کا علاقہ کاکس بازار جہاں روہنگیا پناہ گزینوں کا کیمپ ہے۔
15-05-2023-UNICEF-Cyclone-Mocha.jpg
طوفان موکا سے متاثرہ بنگلہ دیش کا علاقہ کاکس بازار جہاں روہنگیا پناہ گزینوں کا کیمپ ہے۔

بنگلہ دیش کی قابل قدر میزبابی

یو این ایچ آر سی کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش نے قریباً دس لاکھ روہنگیا پناہ گزینوں کی میزبانی کر کے انسانی ہمدردی سے متعلق اپنے عزم اور فیاضی کا مظاہرہ کیا ہے جس کا روہنگیا پناہ گزینوں اور ان کی میزبان بنگلہ دیشی آبادیوں پر متواتر سرمایہ کاری کے ذریعے اعتراف کیا جانا چاہیے۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ اس اقدام میں اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے آگے بڑھے۔ 

روہنگیا آبادی میانمار واپسی کے قابل ہونے سے پہلے خلیج بنگال کے ساحل پر اس علاقے میں پناہ گزینوں کی حیثیت سے مقیم ہے جسے سمندری طوفانوں، سیلاب، پہاڑی تودے گرنے، جنگلوں کی آگ اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے شدید خطرہ رہتا ہے۔

ان قدرتی عوامل کے گنجان کیمپوں پر تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ایک کے بعد دوسری آفات پناہ گزینوں کو بانس اور ترپال سے بنی پناہ گاہوں کی تعمیرنو کا بمشکل موقع دیتی ہیں۔

موسم سے مطابقت

یو این ایچ سی آر موسمیاتی حوادث کے خلاف حکمت عملی کو ترجیح دے رہا ہے اور اس سلسلے میں ان لوگوں کو ایسی پناہ گاہیں مہیا کرنے کے لیے کہہ رہا ہے جو موسمی شدت اور آگ سے بچاؤ کے قابل ہوں اور ان کی بدولت تعمیرومرمت اور بحالی پر اٹھنے والے لاکھوں ڈالر کے اخراجات بچائے جا سکتے ہیں۔ 

امدادی اداروں نے بنگلہ دیش میں روہنگیا افراد اور ان کی میزبانی کرنے والے لوگوں پر مشتمل تقریباً چودہ لاکھ ستر ہزار کی آبادی کے لیے اس سال 876 ملین ڈالر امداد کی اپیل کی ہے۔

 تاہم اگست 2023 کے وسط تک اس حوالے سے مشترکہ اقدامات کے منصوبے کے لیے صرف 28.9 فیصد مالی وسائل ہی جمع ہو پائے ہیں، جس وسیع تر انسانی بحران سے بچنے کے لیے متواتر اور قابل اعتبار مالی معاونت کی ضرورت واضح ہوتی ہے۔