روہنگیا پناہ گزینوں کی خوراک کی راشن بندی پر تشویش
میانمار میں روہنگیا پناہ گزینوں کے لیے خوراک کی راشن بندی شروع ہونے پر حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے ایک اعلیٰ سطحی ماہر نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ آگے بڑھے اور اس پالیسی کو تبدیل کرے جو ان لوگوں کے لیے ''زندگی اور موت'' کا معاملہ ہے۔
یہ پیش رفت اقوام متحدہ کے عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) کے اس اعلان کے بعد سامنے آئی ہے کہ وہ مالی وسائل کی کمی کے باعث وسیع و عریض کاکس بازار کیمپ کمپلیکس میں پناہ گزین روہنگیا لوگوں کی امداد میں یکم مارچ سے تخفیف کر دے گا۔
MYANMAR: @RapporteurUn urgently appeals to countries to reverse “shameful & catastrophic cuts” to food rations for #Rohingya refugees in Bangladesh that @WFP implemented yesterday. “A traumatised population already suffering from widespread malnutrition.” https://t.co/P8wAMQ1Qus https://t.co/bQzZ69IReB
UN_SPExperts
میانمار کے بارے میں اقوام متحدہ کے خصوصی اطلاع کار ٹام ایںڈریوز نے کہا ہے کہ ''پناہ گزینوں کے لیے خوراک میں یہ کمی عالمی برادری کے ضمیر پر دھبے کی حیثیت رکھتی ہے۔ میں نے کیمپوں میں مایوس خاندانوں سے بات کی ہے جنہیں قیمتوں میں اضافے کے باعث پہلے ہی ضروری غذائی اشیا کی کمی کا سامنا ہے۔ غذائی امداد میں اس تخفیف کو واپس لینا روہنگیا خاندانوں کے لیے واقعتاً زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔''
دس لاکھ متاثرین
ٹام اینڈریوز جینیوا میں انسانی حقوق کونسل کو آزاد حیثیت میں اطلاعات فراہم کرتے ہیں جن کا کہنا ہے کہ اس تخفیف سے قریباً دس لاکھ روہنگیا پناہ گزین متاثر ہوں گے جو میانمار کی فوج کے مظالم سے جان بچا کر 2017 سے بنگلہ دیش میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے امدادی اداروں نے پہلے ہی خبردار کیا ہے کہ بنگلہ دیش میں پناہ گزین ہر 10 میں سے چار روہنگیا بچوں کی نشوونما رک گئی ہے۔ کاکس بازار کے کیمپوں نصف سے زیادہ بچے اور ہر 10 حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین میں سے چار خون کی کمی کا شکار ہیں۔
عالمی پروگرام برائے خوراک کے مطابق اسے روہنگیا پناہ گزینوں کو تحفظ زندگی کے لیے فراہم کی جانے والی مالی امداد میں 125 ملین ڈالر کی کمی کا سامنا ہے جو اب ماہانہ 12 ڈالر کے بجائے 10 ڈالر وصول کر رہے ہیں۔
روہنگیا خاندان اس رقم کے ذریعے کیمپوں میں قائم ڈبلیو ایف پی کے مراکز سے 40 سے زیادہ اقسام کی خشک اور تازہ خوراک سے اشیا منتخب کر سکتے ہیں۔ تاہم اقوام متحدہ کے ادارے کا کہنا ہے کہ امداد میں تخفیف کے اثرات ''خوفناک ہوں گے'' کیونکہ روہنگیا بحران کو تقریباً چھ سال گزرنے کے بعد انہیں فراہم کی جانے والی دیگر ضروری خدمات پہلے ہی سکڑ گئی ہیں۔
کھوکھلے وعدے
ٹام اینڈریوز نے اس انتباہ کو دہراتے ہوئے اقوام متحدہ کے رکن ممالک سے فوری امداد فراہم کرنے کے لیے کہا ہے جنہوں نے روہنگیا لوگوں کی محض ''زبانی مدد'' کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ''روہنگیا خاندان سیاسی باتیں نہیں کھا سکتے۔''
ان کا کہنا ہے کہ ''اقوام متحدہ کے رکن ممالک کو مدد کے خالی خولی اعلانات کو تحفظ زندگی میں مددگار اقدامات میں تبدیل کرنے میں پہلے ہی دیر ہو چکی ہے۔''
خصوصی اطلاع کار نے کہا کہ ''اگر مزید انسانی امداد نہیں آتی تو آئندہ دو مہینوں کے دوران اس تخفیف میں مزید اضافہ ہو جائے گا اور خوراک کے لیے دی جانے والی امداد میں ایک تہائی کمی آ جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے کیمپوں میں ہر پناہ گزین کو روزانہ اوسطاً 0.27 ڈالر پر زندہ رہنے کی کوشش کرنا پڑے گی۔''