انسانی کہانیاں عالمی تناظر

بنگلہ دیش میں مقیم روہنگیا پناہ گزینوں کو امداد کی کمی کا سامنا

بنگلہ دیش میں روہنگیا پناہ گزینوں کو عالمی ادارہ خوراک کی طرف سے ماہانہ فوڈ پارسل دیے جاتے ہیں۔
© WFP/Sayed Asif Mahmud
بنگلہ دیش میں روہنگیا پناہ گزینوں کو عالمی ادارہ خوراک کی طرف سے ماہانہ فوڈ پارسل دیے جاتے ہیں۔

بنگلہ دیش میں مقیم روہنگیا پناہ گزینوں کو امداد کی کمی کا سامنا

انسانی امداد

عالمی ادارہ برائے خوراک کے مطابق بنگلہ دیش کے جنوب میں واقع کیمپوں میں رہنے والے روہنگیا پناہ گزینوں کی ضروری امداد کے لیے اِس وقت فراہم کردہ مالی وسائل ناکافی ہیں جس کی وجہ سے گزشتہ تین ماہ میں غذائی امداد میں دوسری مرتبہ کٹوتی کرنا پڑی ہے۔

مارچ میں ان کیمپوں میں مقیم لوگوں کو ہر ماہ خوراک کی خریداری کے لیے دیے جانے والے فی کس 12 ڈالر کے واؤچر کو گھٹا کر 10 ڈالر کر دیا گیا تھا اور جون میں یہ رقم مزید کم ہو کر 8 ڈالر تک آ گئی جو روزانہ 27 سینٹ کے برابر ہے۔

Tweet URL

بنگلہ دیش میں ڈبلیو ایف پی (عالمی ادارہ برائے خوراک) کے کنٹری ڈائریکٹر ڈوم سکالپیلی کا کہنا ہے کہ غذائی امداد میں کمی لانا آخری چارہ تھا۔ بہت سے عطیہ دہندگان نے مالی وسائل مہیا کیے ہیں لیکن اب تک جو کچھ حاصل ہوا ہے وہ کافی نہیں ہے۔ 

بدھ کو جاری ہونے والے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ روہنگیا خاندانوں کو وہ مکمل مدد دوبارہ فراہم کرنا بہت ضروری ہے جس کے وہ حق دار ہیں۔ اس سلسلے میں جتنا انتظار کیا جائے گا کیمپوں میں بھوک اتنی ہی پھیلتی جائے گی اور پہلے ہی  بڑی تعداد میں بچوں کو غذائی قلت کے علاج کے پروگراموں میں داخل کیا جا رہا ہے۔ 

بنگلہ دیش کے جنوبی شہر کاکس بازار کے مہاجر کیمپوں میں میانمار سے تعلق رکھنے والے 950,000 سے زیادہ روہنگیا مہاجرین رہتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر لوگ اگست 2017 میں ملک کی مسلح افواج کی جانب سے جنوبی میانمار میں بڑے پیمانے پر اور منظم حملوں کے بعد ملک چھوڑ آئے تھے۔ اقوام متحدہ کے سابق ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق زید رعد الحسین نے میانمار کی اس صورتحال کو "نسلی تطہیر کی واضح ترین مثال" قرار دیا تھا۔ 

'مدد کا واحد قابل اعتماد ذریعہ' 

اقوام متحدہ میں پناہ گزینوں کے امور سے متعلق ادارہ (یو این ایچ سی آر) یہ بحران شروع ہونےکے بعد روہنگیا پناہ گزینوں کو مدد دیتا آیا ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ ڈبلیو ایف پی کی غذائی امداد وہ واحد قابل اعتماد ذریعہ ہے جس پر یہ پناہ گزین اپنی بنیادی خوراک اور غذائی ضروریات کی تکمیل کے لیے انحصار کر سکتے ہیں۔ 

تاہم رواں سال کے آغاز سے ہی اس اہم ترین ذریعے پر سخت دباؤ ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ عطیہ دہندگان کی جانب سے فراہم کیے جانے والے مالی وسائل میں کمی آ گئی ہے۔ 

'ڈبلیو ایف پی' تازہ خوراک پر مشتمل امداد کی فراہمی کے علاوہ حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین اور پانچ سال سے کم عمر بچوں کو غذائیت کی فراہمی کے پروگراموں پر بھی عملدرآمد کراتا ہے۔ 

'یو این ایچ سی آر' کے مطابق اس اضافی مدد کے باوجود بدحال گھرانے تاحال بمشکل گزارا کر رہے ہیں۔ اس صورتحال کو مزید بگڑنے سے بچانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ان کیمپوں میں مقیم تمام روہنگیا آبادی کے لیے پوری غذائی مدد کو فی الفور بحال کیا جائے۔ 

عطیہ دہندگان کی امداد میں کمی 

ڈبلیو ایف پی کے علاوہ اقوام متحدہ کے دیگر ادارے بھی عطیہ دہندگان کی جانب سے فراہم کردہ مالی وسائل میں کمی کے اثرات محسوس کر رہے ہیں۔ 

2023 میں روہنگیا لوگوں کو درپیش انسانی بحران سے نمٹنے کے منصوبے کے تحت قریباً ایک ملین ضرورت مند پناہ گزینوں کے لیے 875 ملین ڈالر درکار ہیں تاہم ابھی تک اس سلسلے میں ایک چوتھائی وسائل ہی مہیا ہو سکے ہیں۔

 کیمپوں میں انسانی حالات کو مزید بگاڑ سے بچانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ تعلیم، ہنر کی تربیت اور روزگار کے مواقع پر سرمایہ کاری کی جائے۔  جوہانس وان ڈر کلاؤ

'یو این ایچ سی آر' نے خبردار کیا ہے کہ ایسی کٹوتیوں کے اثرات خواتین اور بچوں کے لیے خاص طور پر تباہ کن ہیں جو اس پناہ گزین آبادی کا 75 فیصد ہیں اور انہیں بدسلوکی، استحصال اور صںفی بنیاد پر تشدد کے شدید خطرات کا سامنا ہے۔ 

ناکافی خوراک اور قانونی آمدنی پیدا کرنے کے ذرائع کی عدم موجودگی میں پناہ گزین بقا کے لیے انتہائی مایوس کن اقدامات پر مجبور ہو رہے ہیں جن میں کم عمری کی شادی، بچہ مزدوری اور خطرناک سمندری سفر پر روانگی خاص طور پر نمایاں ہیں۔ 

روزگار کے پروگراموں کی ضرورت 

روہنگیا پناہ گزینوں کی موجودہ صورتحال کے طوالت پکڑنے اور ضروریات میں متواتر اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے عالمی برادری کی جانب سے مزید مدد کی ضرورت ہو گی۔ 

بنگلہ دیش کے لیے 'یو این ایچ سی آر' کے نمائندے جوہانس وان ڈر کلاؤ  نے کہا ہے کہ کیمپوں میں انسانی حالات کو مزید بگاڑ سے بچانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ تعلیم، ہنر کی تربیت اور روزگار کے مواقع پر سرمایہ کاری کی جائے۔ 

اس سے پناہ گزینوں کو خودانحصاری اور اپنے ذرائع سے اپنی بنیادی ضروریات کی تکمیل میں مدد ملے گی اور سب سے بڑے کر جب وہ میانمار کی جانب اپنی رضا کارانہ اور محفوظ واپسی کے قابل ہو جائیں گے تو اپنی زندگیوں کی تعمیرنو کے لیے تیار ہوں گے۔