انسانی کہانیاں عالمی تناظر

بنگلہ دیش: روہنگیا پناہ گزینوں کی غذائی راش بندی پر تنقید

بنگلہ دیش میں روہنگیا پناہ گزینوں کو عالمی ادارہ خوراک کی طرف سے ماہانہ فوڈ پارسل دیے جاتے ہیں۔
© WFP/Sayed Asif Mahmud
بنگلہ دیش میں روہنگیا پناہ گزینوں کو عالمی ادارہ خوراک کی طرف سے ماہانہ فوڈ پارسل دیے جاتے ہیں۔

بنگلہ دیش: روہنگیا پناہ گزینوں کی غذائی راش بندی پر تنقید

انسانی امداد

بنگلہ دیش میں اقوام متحدہ نے روہنگیا پناہ گزینوں کو دی جانے والی امدادی خوراک میں دوسری مرتبہ کٹوتی کی مذمت کی ہے۔ عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) کو مالی امداد میں 56 ملین ڈالر کمی کے باعث یہ کٹوتی کرنا پڑی ہے۔

اس کٹوتی کے بعد روہنگیا پناہ گزینوں کو ملنے والی خوراک کی مالیت 8 ڈالر ماہانہ یا 27 سینٹ روزانہ تک رہ جائے گی۔

Tweet URL

رواں سال کے آغاز پر یہ پناہ گزین ماہانہ فی کس 12 ڈالر مالیت کی خوراک حاصل کر رہے تھے جس سے ان کی روزانہ غذائی ضروریات بمشکل پوری ہوتی تھیں لیکن مالی امداد میں کمی کے باعث اسے یکم مارچ کو 10 ڈالر تک محدود کر دیا گیا۔  

'انتہائی تشویشناک حالات'  

بنگلہ دیش میں اقوام متحدہ کے رابطہ کار گوین لیوس نے کہا ہے کہ "ہمیں شدید تشویش ہے کہ ڈبلیو ایف پی کو بنگلہ دیش میں روہنگیا مہاجرین کی غذائی امداد میں کٹوتی کرنا پڑی ہے۔

اس اقدام کے غذائی اور طبی نتائج تباہ کن ہوں گے اور خاص طور پر ان سے خواتین، بچوں اور انتہائی بدحال لوگوں پر برا اثر پڑے گا۔ ہم اس معاملے میں عالمی برادری سے فوری مدد کی اپیل کرتے ہیں۔"

روہنگیا میں مسلمانوں کی اکثریت ہے جو اگست 2017 میں میانمار میں فوجی کارروائی کے بعد لاکھوں کی تعداد میں نقل مکانی کر کے بنگلہ دیش آ گئے تھے۔ اس وقت اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے اس صورتحال کو نسلی صفائی کا مکمل نمونہ قرار دیا تھا۔

میانمار میں مظالم سے جان بچا کر آنے والے یہ لوگ بنگلہ دیش میں پہلے سے پناہ گزین تقریباً 300,000 افراد میں نیا اضافہ تھے اور اب تقریباً دس لاکھ افراد اس جگہ رہتے ہیں جو دنیا میں سب سے بڑا مہاجر کیمپ ہے۔

غذائی امداد پر انحصار

مسلم اکثریتی روہنگیا مہاجرین کے لئے درکار امداد کا صرف 24.6 فیصد ہی مہیا ہو پایا ہے جس سے انہیں بنیادی طبی خدمات، غذائیت، خوراک اور تعلیم فراہم کی جا رہی ہے جبکہ ان کے پاس کوئی دوسرا امدادی ذریعہ نہیں ہے۔

لیوس نے کہا کہ "بنگلہ دیش کے حکام نے روہنگیا کیمپوں میں رہنے والے لوگوں کے کام کرنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور ان کا تمام تر انحصار عالمی برادری کی مہیا کردہ مالی امداد پر ہے۔"

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے متعین کردہ تین غیرجانبدار ماہرین نے بھی اسی بات کا اعادہ کیا ہے جو بنگلہ دیش میں روہنگیا مہاجرین کے حالات کا جائزہ لے رہے ہیں۔

تینوں ماہرین، ٹام اینڈریوز، مائیکل فخری اور آلیور ڈی شٹر نے خبردار کیا ہے کہ کٹوتیوں کے تباہ کن نتائج ہوں گے اور انہوں نے عطیہ دہندگان پر زور دیا ہے کہ وہ غذائی امداد کی مکمل بحالی کے لئے درکار مالی وسائل مہیا کریں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ "تین ماہ کے دوران روہنگیا مہاجرین کی خوراک میں تیسری مرتبہ کٹوتی ہوئی ہے جس سے ان لوگوں کی صحت و سلامتی کو مزید نقصان پہنچ رہا ہے جو پہلے ہی شدید صدمے اور محرومی کا سامنا کر رہے ہیں۔"

مالی وسائل کی کمیابی روہنگیا پناہ گزینوں کو فراہم کی جانے والی خوراک کی راشن بندی کا سبب بن رہی ہے۔
IOM/Mashrif Abdullah Al
مالی وسائل کی کمیابی روہنگیا پناہ گزینوں کو فراہم کی جانے والی خوراک کی راشن بندی کا سبب بن رہی ہے۔

'امداد بحال کی جائے'

ماہرین کا کہنا ہے کہ "رکن ممالک امدادی مالی وسائل میں 56 ملین ڈالر کی کمی کو فوری دور کریں جو ان کٹوتیوں کا باعث بنی ہے۔" انہوں ںے امداد میں کمی کرنے والوں سے اپنا اقدام واپس لینے کے لئے کہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ "جن رکن ممالک نے تاحال روہنگیا پناہ گزینوں کو مالی مدد مہیا نہیں کی وہ بلاتاخیر اس کی فراہمی یقینی بنائیں۔

بنگلہ دیش میں روہنگیا خاندانوں کو پائیدار سطح کی خوراک فراہم کرنے میں ناکامی بین الاقوامی برادری کے ضمیر پر داغ ہے۔ وہ اپنی مرضی سے بنگلہ دیش میں نہیں آئے بلکہ میانمار کی فوج کے نسل کش حملوں نے انہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا ہے۔"