انسانی کہانیاں عالمی تناظر

صحت عیاشی نہیں بلکہ ایک بنیادی انسانی حق ہے: ٹیڈروز

ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے کہا کہ بیماریوں سے اموات کی تعداد میں اگرچہ کمی آ رہی ہے لیکن یہ رفتار خاطرخواہ حد تک تیز نہیں ہے (فائل فوٹو)
UN Photo/Evan Schneider
ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے کہا کہ بیماریوں سے اموات کی تعداد میں اگرچہ کمی آ رہی ہے لیکن یہ رفتار خاطرخواہ حد تک تیز نہیں ہے (فائل فوٹو)

صحت عیاشی نہیں بلکہ ایک بنیادی انسانی حق ہے: ٹیڈروز

صحت

ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس کا کہنا ہے کہ ایچ آئی وی، کووڈ۔19 اور ایم پاکس نے دنیا کو بآور کرایا ہے کہ صحت عیاشی نہیں جس تک رسائی صرف خواص کو حاصل ہو بلکہ یہ بلاامتیاز تمام انسانوں کا بنیادی حق ہے۔

وہ اتوار کو آسٹریلیا کے شہر برسبین میں ایچ آئی وی سائنس پر انٹرنیشنل ایڈز سوسائٹی کی شروع ہونے والی چار روزہ کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔

Tweet URL

انہوں نے کانفرنس کے شرکاء کو بتایا کہ اس سال ڈبلیو ایچ او کے قیام کو 75 برس مکمل ہو گئے ہیں اور یہ ادارہ اس تصور پر قائم کیا گیا تھا کہ 'صحت تمام انسانوں کا بنیادی حق ہے'۔

ایچ آئی وی اور انسانی حقوق

ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس کا کہنا تھا کہ 1948 میں جب ڈبلیو ایچ او کا دستور وجود میں آیا تو اس وقت ایچ آئی وی کا نام کوئی نہیں جانتا تھا۔ ’یہ بیماری پہلی مرتبہ 40 سال قبل سامنے آئی اور صحت کے بنیادی حق سے متعلق یہی اصول اور اس کے ساتھ سائنس کی طاقت اور متاثرہ لوگوں کی آواز سننا ایچ آئی وی کے خلاف اقدامات میں مرکزی اہمیت کے حامل رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ اس عرصہ میں طبی میدان میں جو ترقی ہوئی اس کی بدولت ناصرف ایچ آئی وی کی لہر کو روکنے میں مدد ملی بلکہ اس سے کووڈ۔19 اور ایم پاکس سمیت بہت سی دیگر بیماریوں کے خلاف اقدامات بھی ممکن ہوئے۔ ’ہم اس اہم ترقی کا خیرمقدم کرتے ہیں جو بنیادی، طبی، روک تھام، سماجی و طرزعمل اور عملدرآمدی سائنس کے تناظر میں اس اجلاس میں سامنے لائی جائے گی۔‘

ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے امید ظاہر کی کہ کانفرنس کے دوران ایچ آئی وی اور کووڈ۔19 کے بارے میں نئے تجزیوں کا تبادلہ کیا جائے گا اور ایچ آئی وی اور ایم پاکس کے مابین واضح تعلق اور ایم پاکس کی وبا سے نمٹنے میں مقامی سطح پر لوگوں کے مرکزی کردار بارے بھی بتایا جائے گا۔

حوصلہ افزا اطلاعات

یو این ایڈز اور ڈبلیو ایچ او کی جانب سے گزشتہ ہفتے جاری کردہ نئی معلومات کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ کیسے بوٹسوانا، ایسواٹینی، روانڈا اور متحدہ جمہوریہ تنزانیہ اور زمبابوے نے ایچ آئی وی کے مریضوں میں اس کی تشخیص (95-95-95) کے اہداف حاصل کر لیے ہیں اور کم از کم 16 دیگر ممالک بھی ایسا کرنے کو ہیں۔ 

ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس کا کہنا تھا کہ سائنس، انسانی حقوق اور طبی اقدامات میں مقامی سطح پر لوگوں کی شمولیت ہمیں یہاں تک لائی ہے، لیکن اس حوصلہ افزا پیش رفت کے باوجود بہت سے حقیقی مسائل اب بھی موجود ہیں جن میں مالی وسائل کی غیر یقینی دستیابی اور طبی مسائل کا بھاری بوجھ اٹھائے بہت سے ممالک کا بیرونی مدد پر انحصار سرفہرست ہیں۔

صحت عامہ کی ترجیحات

انہوں نے کہا کہ بیماریوں سے اموات کی تعداد میں اگرچہ کمی آ رہی ہے لیکن یہ رفتار خاطرخواہ حد تک تیز نہیں ہے جبکہ بعض ممالک میں ایچ آئی وی کے پھیلاؤ میں بھی اضافہ دیکھنے کو آ رہا ہے۔ ’ اس کے ساتھ دنیا کو باہم جڑے بہت سے بحرانوں کا سامنا ہے جن میں جنگیں، مہاجرت اور موسمیاتی تبدیلی نمایاں ہیں جو کہ ایچ آئی وی کے خلاف اقدامات پر بھی اثرانداز ہوتی ہیں۔‘

ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے مستقبل کے حوالے سے تین ترجیحات پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ وہی تین عوامل ہیں جو صحت عامہ کو یہاں تک لائی ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ پہلی ترجیح یہ ہے کہ سائنس کی طاقت سے کام لیتے رہنا ہے، جس سے ہمیں نئے اور مزید موثر ذرائع تیار کرنے، ان کے اثرات کو وسعت دینے اور علاج و ویکسین کی تلاش جاری رکھنے میں مدد ملے گی جبکہ دوسری ترجیح یہ ہے کہ ہمیں بیماریوں کی روک تھام کے ذرائع اور پروگرام وضع کرنے اور ان کی تیاری میں متاثرہ لوگوں کی بات سننا ہو گی اور ان کو مدظر رکھتے ہوئے اقدامات کرنا ہوں گے۔

ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے اپنی تقریر ختم کرتے ہوئے کہا کہ آخری لیکن سب سے اہم ترجیح صحت کے حوالے سے انسانی حقوق کو مرکزی اہمیت دینا ہے۔

ایچ آئی وی سائنس پر انٹرنیشنل ایڈز سوسائٹی کی کانفرنس 26 جولائی تک جاری رہے گی۔ کانفرنس میں دنیا بھر سے آئے مندوبین ایچ آئی وی پر جدید سائنسی تحقیق کو پالیسی اور عمل کا حصہ بنانے پر تجاویز مرتب کرے گی۔