انسانی کہانیاں عالمی تناظر

سماجی تحفظ کے ذریعے خواتین کو بااختیار بنائیں: او ایچ سی ایچ آر

فرانس میں پنش اصلاحات کے خلاف احتجاج کے لیے مظاہرین پریس اوپرا کے باہر اکٹھے ہو رہے ہیں۔
UN News
فرانس میں پنش اصلاحات کے خلاف احتجاج کے لیے مظاہرین پریس اوپرا کے باہر اکٹھے ہو رہے ہیں۔

سماجی تحفظ کے ذریعے خواتین کو بااختیار بنائیں: او ایچ سی ایچ آر

خواتین

سماجی تحفظ تک رسائی ایک بنیادی انسانی حق ہے تاہم انسانی حقوق سے متعلق ایک حالیہ رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں اب بھی بہت سی خواتین اور لڑکیاں سماجی تحفظ سے متعلق ادائیگیوں اور پنشن جیسی سہولیات تک رسائی سے محروم ہیں۔

سماجی تحفظ کا نظام غیرمحفوظ لوگوں کو مالی مدد، طبی نگہداشت اور سماجی انشورنس مہیا کرنے والی پالیسیوں اور پروگراموں کے ذریعے مشکل حالات سے حفاظت دیتا ہے۔ 

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل اور انسانی حقوق کے دفتر (او ایچ سی ایچ آر) میں معاہدوں کے طریقہ ہائے کار سے متعلق ڈویژن کے ڈائریکٹر ماہامین سیسی گورو کا کہنا ہے کہ اس سے سماجی اخراج کو روکنے اور سماجی شمولیت کو فروغ دینے میں مدد ملتی ہے۔ 

طویل مدتی صنفی خلا 

لڑکیوں کے جلد شادی اور جلد حمل پر مجبور ہونے یا گھریلو کام کے شدید بوجھ اور اس سے لامحالہ طور پر رسمی شعبے میں روزگار تک رسائی کم ہو جانے اور سماجی تحفظ، انشورنس یا پینشن جیسے قومی منصوبوں کے لیے ادائیگی کے قابل نہ ہونے جیسے سماجی عوامل کی وجہ سے طویل مدتی صنفی فرق نے جنم لیا ہے۔

خاص طور پر غیرمندرج پناہ گزین خواتین کے لیے یہ صورتحال اور بھی نازک ہے۔

غیرمندرج مہاجرین سے متعلق بین الاقوامی تعاون کے پلیٹ فارم کی ڈائریکٹر مشیل لیوئے نے کہا ہے کہ غیرمندرج مہاجر خواتین کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ یہ ہے کہ انہیں خدمات یا انصاف تک رسائی نہیں ہوتی کیونکہ انہیں یہ خدشہ رہتا ہے کہ ایسی کوشش کے نتیجے میں انہیں گرفتار یا ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔

کووڈ وبا، موسمیاتی ہنگامی حالات، نئے تنازعات اور بڑھتی ہوئی عدم مساوات نے سماجی تحفظ کے حوالے سے صنفی فرق کو بدتر بنا دیا ہے۔

حتیٰ کہ ایسی خواتین بھی کم ترین اجرت والی نوکریاں تلاش کرتی ہیں جنہیں بہتر فوائد کے ساتھ کام مل سکتا ہے جبکہ ان کی تولیدی اور گھریلو دیکھ بھال کی ذمہ داریاں انہیں نوکریوں کی مارکیٹ سے باہر رہنے پر مجبور کرتی ہیں جس کا نتیجہ ان کے معمر ہونے پر پینشن کے حوالے سے صںفی فرق کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ 

کووڈ وبا، موسمیاتی ہنگامی حالات، نئے تنازعات اور بڑھتی ہوئی عدم مساوات نے سماجی تحفظ کے حوالے سے صنفی فرق کو بدتر بنا دیا ہے۔ 

خواتین کی شمولیت کی ضرورت 

سیسی گورو نے واضح کیا کہ ان تمام مسائل پر قابو پانے کے لیے خود خواتین کو ایسے فیصلوں میں رائے دینے کا حق ہونا چاہیے جو انہیں سب سے زیادہ متاثر کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ مسائل کا حل ڈھونڈنے اور ان کا مکمل سماجی تحفظ کا حق محفوظ بنانے کا موثر ترین طریقہ ہے۔ تاحال قومی سطح کے قانون ساز اداروں میں مردوں کی نمائندگی خواتین کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے اور نجی شعبوں اور تجارتی تنظیموں میں قائدانہ عہدوں پر خواتین کی نمائندگی مردوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ 

انہوں نے واضح کیا کہ سماجی تحفظ کی پالیسیوں کی تشکیل اور ان پر اثرانداز ہونے کے حوالے سے عوامی اور سیاسی زندگی میں خواتین کی شرکت کا فقدان ہے۔