انسانی کہانیاں عالمی تناظر

عالمی صحت: بچے اور خواتین وسیع ’عدم مساوات‘ کی بھاری قیمت چُکا رہے ہیں

لیک چاڈ کی ایک غیرمحفوظ ماں مغربی چاڈ کے ایک کیمپ میں اپنے بچے کے ساتھ۔
© UNICEF/Frank Dejongh
لیک چاڈ کی ایک غیرمحفوظ ماں مغربی چاڈ کے ایک کیمپ میں اپنے بچے کے ساتھ۔

عالمی صحت: بچے اور خواتین وسیع ’عدم مساوات‘ کی بھاری قیمت چُکا رہے ہیں

صحت

اقوام متحدہ کی ایک نئی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیک وقت جنگ، کووڈ۔19 وباء اور موسمیاتی تبدیلی کے بحرانوں سے دنیا بھر میں خواتین اور بچوں کی صحت کو نقصان ہوا ہے اور ان عوامل نے بچوں، نوجوانوں اور خواتین کی ترقی کے امکانات پر تباہ کن اثر ڈالا ہے۔

اس رپورٹ میں دی گئی معلومات سے فی الواقع بچوں کی بہبود کے ہر بڑے اقدام اور پائیدار ترقی کے اہداف سے متعلق متعدد اہم اشاریوں میں واضح اور اہم نوعیت کی تنزلی سامنے آتی ہے۔ ہر خاتون اور ہر بچے کی ترقی کے حوالے سے 2020 میں شائع ہونے والی تازہ ترین رپورٹ کے بعد اب تک غذائی عدم تحفظ، بھوک، نوعمری میں شادی، قریبی شریک حیات کے ہاتھوں تشدد کے واقعات اور نوجوانوں کو لاحق مایوسی اور اندیشوں میں اضافہ ہوا ہے۔

Tweet URL

'وعدہ پورا کریں'

'وعدہ پورا کریں' کے عنوان سے یہ رپورٹ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او)، اقوام متحدہ میں بچوں کے فنڈ (یونیسف)، جنسی و تولیدی صحت سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایف پی اے)، زچہ، نومولود اور بچوں کی صحت سے متعلق شراکت (پی ایم این سی ایچ) اور کاؤنٹ ڈاؤن ٹو 2030 سمیت عالمگیر شراکت داروں کی جانب سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی خواتین، بچوں اور بالغوں کی صحت سے متعلق 'ہر خاتون اور ہر بچے کے لیے عالمگیر حکمت عملی' پر اقدامات کی پیش رفت کا دو سالہ خلاصہ ہے۔

ایک اندازے کے مطابق 2021 میں 25 ملین بچوں کو یا تو مکمل ویکسین نہیں لگائی گئیں تھیں یا انہیں ویکسین تک رسائی ہی حاصل نہ تھی، جس سے انہیں مہلک اور کمزور کر دینے والی بیماریاں لاحق ہونے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔

بہت سے بچے وباء کے دوران سکول جانے سے محروم ہو گئے جن میں بہت سے ایسے ہیں جو ایک سال سے زیادہ عرصہ تک سکول سے دور رہے جبکہ 104 ممالک اور علاقوں میں تقریباً 80 فیصد بچوں کو سکول بند ہونے کے باعث تعلیم میں نقصان ہوا۔

10.5 ملین بچے والدین اور دیکھ بھال کرنے والوں سے محروم

عالمگیر وباء کے آغاز کے بعد اب تک 10.5 ملین بچے اپنے والدین میں سے کسی ایک یا اپنی دیکھ بھال کرنے والے فرد سے محروم ہو گئے ہیں۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش کا کہنا ہے کہ ''کووڈ۔19 وباء سے لے کر جنگوں اور موسمیاتی ہنگامی صورتحال تک تمام عالمگیر بحرانوں کا سبب بننے والی وسیع تر عدم مساوات سے نمٹنے میں ناکامی ہمارا وعدہ پورا نہ ہونے کا بنیادی سبب ہے۔''

''یہ رپورٹ خواتین، بچوں اور نوجوانوں پر زچگی میں اموات سے لے کر تعلیمی نقصان اور شدید غذائی قلت تک بہت بحرانوں کے اثرات کو بیان کرتی ہے۔ 

صحت مند اور تعمیری زندگی کے امکانات میں تیزتر کمی

ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے کہا ہے کہ ''کووڈ وباء کے خواتین، بچوں اور نوجوانوں کی صحت و بہبود پر طویل مدتی اثرات واضح ہو رہے ہیں اور معاشرے کے ان طبقات کی صحت مند اور مفید زندگیوں کے امکانات تیزی سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔''

''اب جبکہ دنیا وباء کے اثرات سے خود کو بحال کر رہی ہے تو ایسے میں خواتین، بچوں اور نوجوانوں کی صحت کا تحفظ اور ترقی عالمگیر بحالی میں مدد دینے اور اس عمل کو برقرار رکھنے میں لازمی اہمیت رکھتے ہیں۔''

یونیسف کی سربراہ کیتھرائن رسل نے کہا ہے کہ ''وباءنے تمام غیرمحفوظ لوگوں کے لیے خطرات میں اضافہ کر دیا ہے اور خواتین، بچوں اور نوجوانوں کے لیے کڑی محنت سے حاصل کردہ کامیابیوں کا پہیہ واپس موڑ دیا ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے پاس اس صورتحال کو تبدیل کرنےکی طاقت موجود ہے۔ ہم بنیادی صحت عامہ کے مضبوط اور جامع نظام میں سرمایہ کاری، ویکسین لگانے کے معمول کے پروگرام شروع کرنے اور طبی عملے کو مضبوط بنانے جیسے اقدامات کے ذریعے یہ یقینی بنا سکتے ہیں کہ ہر خاتون اور ہر بچے کو زندہ رہنے اور پھلنے پھولنے کے لیے درکار طبی نگہداشت تک رسائی مل سکے۔

یوگنڈا کے علاقے کشوجوا میں بچے ایک تعلیمی پروگرام میں شریک ہیں۔
© UNICEF/ Zahara Abdul
یوگنڈا کے علاقے کشوجوا میں بچے ایک تعلیمی پروگرام میں شریک ہیں۔

حقوق کی واپسی

یو این ایف پی اے کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر نتالیہ کینم کا کہنا ہے کہ ''بہت سے ممالک میں جنسی اور تولیدی صحت اور حقوق پر بڑھتے ہوئے سیاسی دباؤ کے ہوتے ہوئے آج خواتین، بچے اور نوجوان اس تحفظ سے محروم ہیں جو محض ایک دہائی پہلے تک انہیں حاصل تھا اور بہت سےدیگر لوگوں نے تاحال وہ پیش رفت نہیں دیکھی جس کی انہیں ضرورت ہے۔''

یہ رپورٹ اس بات کا وسیع ثبوت مہیا کرتی ہے کہ بچوں اور بالغوں کے پاس اپنی جائے پیدائش، جنگ سے لاحق خطرے اور اپنے خاندانوں کے معاشی امکانات کی بنیاد پر صحت مند زندگی گزارنے کے نہایت بے قاعدہ امکانات ہیں۔

اعدادوشمار کی گواہی

  • کم آمدنی والے ملک میں پیدا ہونے والے بچے کی متوقع عمر 63 سال ہے جبکہ اچھی آمدنی والے ممالک میں اوسط عمر 80 سال تک ہوتی ہے۔ 2020 میں پانچ ملین بچے پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی انتقال کر گئے جن میں بیشتر کی اموات ایسی بیماریوں سے ہوئیں جنہیں روکا جا سکتا ہے یا جن کا علاج ممکن ہے۔
  • زچہ بچہ اور نوجوانوں کی بیشتر اموات اور مردہ حالت میں بچوں کی پیدائش کے زیادہ تر واقعات ذیلی صحارا افریقہ اور جنوبی ایشیا میں ہوتے ہیں۔
  • 2020 میں 45 ملین سے زیادہ بچوں کو شدید غذائی قلت کا سامنا رہا۔ یہ صورتحال زندگی کے لیے خطرہ ہوتی ہے جس کے نتیجے میں وہ باآسانی موت کے منہ میں جا سکتے ہیں اور انہیں زندگی میں ترقی کرنے کے لیے مواقع تواتر کے ساتھ میسر نہیں آتے اور بیماریوں کا سامنا رہتا ہے۔ ایسے بچوں کی تقریباً تین چوتھائی تعداد زیریں متوسط درجے کی آمدنی والے ممالک میں بستی ہے۔
  • 2020 میں تقریباً 149 ملین بچے بڑھوتری اور ترقی سے محروم تھے، افریقہ واحد خطہ ہے جہاں گزشتہ 20 برس سے زیادہ عرصہ میں ترقی سے محروم بچوں کی تعداد میں بہت بڑا اضافہ ہوا ہے۔ 2000 میں ایسے بچوں کی تعداد 54.4 ملین تھی جو 2020 میں بڑھ کر 61.4 ملین تک پہنچ گئی۔
  • افغانستان، جمہوریہ کانگو، ایتھوپیا، سوڈان، شام اور یمن میں اندرون ملک بے گھر ہو جانے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے اور یہ غذائی عدم تحفظ سے بری طرح متاثر ہونے والے 10 سرفہرست ممالک میں بھی شامل ہیں۔
  • ذیلی صحارا افریقہ میں ایک خاتون کے یورپ یا شمالی امریکہ کی خاتون کے مقابلے میں حمل اور بچے کی پیدائش سے متعلقہ وجوہات کی بناء پر موت کا خطرہ 130 گنا زیادہ ہوتا ہے۔
  • افغانستان، ایتھوپیا، پاکستان، صومالیہ، یوکرین اور یمن میں لاکھوں بچے اور ان کے خاندان حالیہ انسانی بحرانوں کے نتیجے میں جسمانی و ذہنی صحت کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ 2021 میں دنیا بھر میں ریکارڈ 89.3 ملین لوگ جنگ، تشدد مظالم اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے باعث اپنا گھربار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔

اس رپورٹ میں عالمی برادری سے کہا گیا ہے کہ وہ اس نقصان دہ صورتحال سے نمٹے اور پائیدار ترقی کے اہداف میں خواتین، بچوں اور نوجوانوں کے حوالے سے کیے جانے والے وعدے پورے کرے۔

خاص طور پر یہ رپورٹ رکن ممالک سے کہتی ہے کہ وہ طبی خدمات کے شعبے میں سرمایہ کاری جاری رکھیں تاکہ تمام بحرانوں اور غذائی عدم تحفظ پر قابو پایا جا سکے اور دنیا بھر میں خواتین اور نوجوانوں کو بااختیار بنایا جا سکے۔