انسانی کہانیاں عالمی تناظر

یو این ماہرین کی فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کی مذمت

مشرقی یروشلم میں نئی اسرائیلی کالونی۔
UNRWA/Marwan Baghdadi
مشرقی یروشلم میں نئی اسرائیلی کالونی۔

یو این ماہرین کی فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کی مذمت

انسانی حقوق

انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے متعین کردہ ماہرین نے اسرائیلی پولیس کی جانب سے مشرقی یروشلم سے فلسطینی خاندانوں کو جبری بیدخل کیے جانے کی مذمت کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ یہ کارروائیاں جبری منتقلی کے جنگی جرم کے مترادف ہو سکتی ہیں۔

اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) کی جانب سے جاری کردہ بیان میں ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک معمر فلسطینی جوڑے نورا غائد اور مصطفیٰ صوب لابان کو ان کے خاندانی گھر سے بے دخل کیا جانا نہایت ہولناک اور دل شکن ہے جہاں وہ تمام عمر رہے اور اپنے بچوں کی پرورش کی۔

Tweet URL

نسل پرستانہ کارروائیاں 

1967 سے اسرائیل کے زیرقبضہ فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کی صورتحال پر اقوام متحدہ کی خصوصی اطلاع کار فرانسسکا البانیز سمیت ماہرین کے مطابق، جیسا کہ وہ تواتر سے کہہ چکے ہیں، مشرقی یروشلم میں فلسطینیوں کی اپنے گھروں سے جبری بیدخلی اسرائیل کی نسل پرستانہ کارروائیوں کا حصہ ہے جن کا مقصد یروشلم پر یہودیوں کی ملکیت کو مضبوط کرنا اور شہر کی آبادی پر نسلی اعتبار سے غلبہ پانا ہے۔ 

بیان کے مطابق اسرائیلی پولیس نے نورا غائد اور مصطفیٰ صوب لابان کو 11 جولائی کی صبح یروشلم کے قدیم شہر میں ان کے گھر سے بیدخل کیا۔ 

غائد اور صوب لابان کے خاندان نے 1953 سے اس گھر کو پٹے پر لے رکھا تھا اور اس حیثیت سے کیے گئے معاہدے کی رو سے پٹے کی مدت ختم ہونے کے باوجود انہیں وہاں سے بے دخل نہیں کیا جا سکتا۔ اطلاعات کے مطابق خاندان کو اسرائیلی حکام اور آباد کاروں کی جانب سے متواتر ہراسانی اور مقدمات کا سامنا تھا جو وراثت سے متعلق ایک امتیازی قانون کے تحت ان کے گھر پر قبضہ کرنے کے خواہاں تھے۔ اس قانون کا اطلاق مشرقی یروشلم میں رہنے والے فلسطینیوں پر ہوتا ہے۔ 

بے دخلی کی وسیع اور منظم مہم 

ماہرین کا کہنا ہے کہ غائد اور صوب لابان کے خاندان کا معاملہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کو مشرقی یروشلم سے جبری بیدخل اور بے گھر کرنے اور علاقے کو فلسطینیوں سے پاک کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر اور منظم انداز میں کی جانے والی کارروائیوں کا حصہ ہے۔ اطلاعات کے مطابق پورے مشرقی یروشلم میں تقریباً 150 فلسطینی خاندانوں کو اسرائیلی حکام اور آباد کاروں کی تنظیموں کے ہاتھوں جبری بیدخلی اور بے گھری کا سامنا ہے۔ 

ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے اپنی آبادی کو مقبوضہ علاقے میں منتقل کرنا بین الاقوامی انسانی قانون کی سنگین پامالی اور جنگی جرم ہے۔ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ علاقے کا اپنے ساتھ الحاق کرنے اور وہاں نوآباد کاری کے حوالے سے اس کے ارادوں کی اس سے بڑی مثال کوئی اور نہیں ہو سکتی۔  

حقوق کی پامالی روکی جائے

ماہرین نے مزید کہا کہ اسرائیل ایسے دانستہ اقدامات فوری طور پر روکے جو ناصرف فلسطینیوں کے خودارادیت، عدم امتیاز، ترقی، مناسب رہائش اور جائیداد رکھنے کے حقوق کی دانستہ پامالی ہیں بلکہ متاثرہ خاندانوں اور اسرائیلی حکومت کے تحت بے یارومددگار زندگی گزارنے والی پوری فلسطینی برادری کے لیے بھی نقصان دہ ہیں اور ان سے بین الاقوامی قانون کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ 

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے متعین کردہ ماہرین نے کہا کہ یہ دیگر ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ بین الاقوامی قانون کے نظام پر متواتر حملوں کو بند کرائیں۔ 

بیان کے مطابق ماہرین ان مسائل کو تواتر سے اسرائیل کی حکومت کے سامنے لائے ہیں تاہم اب تک اس کی جانب سے انہیں کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ 

فرانسسکا البانیز کے علاوہ اس مسئلے پر خدشات کا اظہار کرنے والے حقوق کے ماہرین میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد، نسل پرستی، اندرون ملک بے گھر ہونے والوں کے انسانی حقوق اور ترقی کے حقوق کی صورتحال کی نگرانی کرنے والے خصوصی اطلاع کار، معمر افراد کے تمام انسانی حقوق یقینی بنانے کے موضوع پر انسانی حقوق کے غیرجانبدار ماہر اور خواتین اور لڑکیوں کے خلاف امتیازی سلوک کے خاتمے سے متعلق ورکنگ گروپ کے ارکان شامل ہیں۔