انسانی کہانیاں عالمی تناظر

اسرائیلی اور فلسطینی قیادت سے تناؤ میں ’غیر منطقی شدت‘ ختم کرنے کی اپیل

غزہ کی پٹی میں اسرئیلی بمباری سے تباہ حال ایک عمارت۔
© UNRWA/Samar Abu Elouf
غزہ کی پٹی میں اسرئیلی بمباری سے تباہ حال ایک عمارت۔

اسرائیلی اور فلسطینی قیادت سے تناؤ میں ’غیر منطقی شدت‘ ختم کرنے کی اپیل

انسانی حقوق

اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے مابین تشدد بڑھ رہا ہے اور اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر تُرک نے رہنماؤں سے دہائیوں پرانے تنازعے کے حل کے لیے فوری کام کی اپیل کرتے ہوئے ''تناؤ میں غیرمعقول اضافہ'' ختم کرنے کو کہا ہے۔

اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے شعبے کے سربراہ وولکر تُرک نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ''تشدد اور جبر کی پالیسی ماضی میں بری طرح ناکام رہی ہے اور ان طریقوں پر مزید کام کرنے کے بجائے میں اسرائیلی اور فسلطینی تنازعے کے تمام فریقین پر زور دیتا ہوں کہ وہ تناؤ میں آنے والی غیرمعقول شدت کو ختم کریں جس کا نتیجہ لاشوں، تباہ شدہ زندگیوں اور مکمل مایوسی'' کی صورت میں ہی نکلا ہے۔

Tweet URL

2022 میں ریکارڈ ہلاکتیں

وولکر تُرک نے بتایا کہ 2022 میں مشرقی یروشلم سمیت مقبوضہ مغربی کنارے میں ریکارڈ تعداد میں فلسطینی ہلاک ہوئے اور اس سال اسرائیل اور مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی ہلاکتوں کی تعداد بھی گزشتہ کئی سال کے مقابلے میں سب سے زیادہ رہی۔

انہوں نے کہا کہ اب تک نیا سال ''مزید خونریزی اور مزید تباہی لایا ہے اور صورتحال مزید نازک ہوتی جا رہی ہے۔''

اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے دفتر (او ایچ سی ایچ آر) نے 2022 میں مشرقی یروشلم سمیت مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں 151 فلسطینیوں کی ہلاکتوں کی اطلاع دی ہے جن میں ایک نوعمر لڑکا بھی شامل ہے جو یا تو اسرائیلی فورسز یا کسی اسرائیلی آباد کار کی فائرنگ سے ہلاک ہوا۔ مزید دو فلسطینی بھی اسرائیلی آباد کاروں کی فائرنگ کا نشانہ بن گئے۔

سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ایسے بہت سے واقعات سے طاقت کے حد سے زیادہ استعمال اور ناجائز ہلاکتوں کے بارے میں سنگین خدشات نے جنم لیا ہے۔

اسی عرصہ میں اسرائیل کے اندر اور مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے ہاتھوں 24 اسرائیلی ہلاک ہو گئے۔

مہلک آغاز

اس سال کے آغاز سے اب تک 34 فلسطینی اور سات اسرائیلی ہلاک ہو چکے ہیں۔

وولکر تُرک نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اسرائیل کے حالیہ اقدامات ''مزید تشدد، انسانی حقوق کے قانون اور بین الاقوامی انسانی قانون کی پامالیوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔''

گزشتہ ہفتے کے اختتام پر مشرقی یروشلم میں ہونے والے حملوں کے بعد اسرائیلی حکام نے ان واقعات کے مشتبہ ذمہ داروں کے گھر سیل کر دیے۔ اس موقع پر 40 سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا گیا اور دو خاندانوں کو ان کےگھروں سے جبری بیدخل کر دیا گیا۔

اسرائیل نے شناختی دستاویزات، شہریت اور رہائش کے حقوق منسوخ کرنے اور مشتبہ حملہ آوروں کے رشتہ داروں کو حاصل تحفظ واپس لینے کے علاوہ گھروں کے انہدام جیسے اقدامات کیے ہیں۔

تشدد میں اضافے کا خدشہ

وولکر تُرک نے کہا کہ عملدرآمد کی صورت میں ایسے اقدامات اجتماعی سزا کا روپ اختیار کر سکتے ہیں جو بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت ''صریحاً ممنوع'' ہے اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون سے مطابقت نہیں رکھتی۔

مزید برآں، اسرائیل کی حکومت نے شہریوں کو آتشیں ہتھیاروں کے اجرا میں تیزی اور وسعت لانے کا مںصوبہ بنایا ہے۔ وولکر ترک نے کہا کہ نفرت انگیز خیالات کا اظہار کرنے والوں کے پاس ہتھیاروں موجودگی سے تشدد اور خونریزی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔''

ہائی کمشنر نے کہا کہ ''ہم تجربے کی بنیاد پر جانتے ہیں کہ آتشیں اسلحے کے پھیلاؤ سے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں دونوں کی ہلاکتوں اور ان کے زخمی ہونے کے خدشات بڑھ جائیں گے۔ اسرائیلی حکام کو معاشرے میں آتشیں ہتھیاروں کی دستیابی کو محدود کرنے کے لیے کام کرنا ہو گا۔''

نفرت پھیلانا بند کریں

وولکر تُرک نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے کے دوران خاص طور پر مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی آباد کاروں اور فلسطینیوں کے مابین تشدد کی متعدد اطلاعات سامنے آ چکی ہیں۔

ہائی کمشنر نے کہا کہ ''میں سرکاری حکام یا دیگر بااختیار عہدوں پر کام کرنے والے تمام لوگوں پر زور دیتا ہوں کہ بدترین صورت اختیار کرتے تشدد کو مزید ہوا دینے کے بجائے ایسی زبان کا استعمال روکیں جس سے دوسروں کے خلاف نفرت بڑھتی ہے۔ نفرت کی یہ آگ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں دونوں کے لیے نقصان دہ ہے۔''

ہائی کمشنر نے تناؤ میں کمی لانے کے لیے فوری اقدامات کرنے کے لیے کہا جن میں ہلاکتوں اور شدید زخموں کی عالمی معیارات کی مطابقت سے تحقیقات یقینی بنانا بھی شامل ہے۔

رہنماؤں سے اپیل

وولکر تُرک نے کہا کہ ''تشدد کا ارتکاب کرنے والوں کو کھلی چھوٹ حاصل ہے اور اس سے یہ پیغام جا رہا ہے کہ حدود سے تجاوز جائز ہے۔ انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کے تحت نفاذ قانون کے کسی بھی پہلو سے زندگی کو پہنچنے والے نقصان کی قابل اعتبار اور موثر تحقیقات ہونی چاہئیں خواہ یہ سکیورٹی فورسز اور مسلح افراد کے مابین فائرنگ کے تبادلے سے ہی کیوں نہ ہوا ہو۔

انہوں ںے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ مشرقی یروشلم سمیت مقبوضہ مغربی کنارے میں اپنی سکیورٹی فورسز کی تمام کارروائیوں میں انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کا مکمل احترام یقینی بنائے۔

ہائی کمشنر کا کہنا تھا کہ ''اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقے کے رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ اس طویل اور غیرمستحکم صورتحال کا سیاسی حل نکالنے کے لیے سازگار حالات پیدا کرنے کی غرض سے ہنگامی بنیادوں پر کام کریں۔'