انسانی کہانیاں عالمی تناظر

ایران جوہری معاہدہ شبہات کے باوجود بہترین دستیاب راستہ: ڈی کارلو

اقوام متحدہ میں سیاسی امور اور قیام امن کے شعبے کی انڈر سیکرٹری جنرل روز میری ڈی کارلو جوہری عدم پھیلاؤ پر سلامتی کونسل کو بریفنگ دے رہی ہیں۔
UN Photo/Eskinder Debebe
اقوام متحدہ میں سیاسی امور اور قیام امن کے شعبے کی انڈر سیکرٹری جنرل روز میری ڈی کارلو جوہری عدم پھیلاؤ پر سلامتی کونسل کو بریفنگ دے رہی ہیں۔

ایران جوہری معاہدہ شبہات کے باوجود بہترین دستیاب راستہ: ڈی کارلو

امن اور سلامتی

اقوام متحدہ میں سیاسی امور کے شعبے کی سربراہ روزمیری ڈی کارلو نے کہا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام پر بین الاقوامی معاہدہ معطل ہے اور اس دوران ملک میں افزودہ یورینیم کے ذخائر طے شدہ حد سے 20 گنا سے بھی بڑھ گئے ہیں۔

مشترکہ جامع منصوبہ عمل (جے پی سی او اے) کے نام سے معروف اس معاہدے کے بارے میں سلامتی کونسل کو بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سفارت کاری ایران کے جوہری مسئلے سے نمٹنے کا واحد موثر طریقہ ہے۔ 

2015 میں طے پانے والے اس معاہدے میں ایران کے جوہری پروگرام کی نگرانی کے اصول متعین کیے گئے ہیں اور یہ ملک پر اقوام متحدہ کی پابندیاں اٹھانے کی راہ ہموار کرتا ہے۔ اس معاہدے پر ایران اور سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان (چین، فرانس، روس، برطانیہ، امریکہ) کے علاوہ جرمنی اور پوری یورپی یونین نے اتفاق کیا تھا۔

امریکی مخمصہ

امریکہ نے 2018 میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں اس معاہدے کو ترک کر دیا تھا اور اب اس میں واپسی کے لیے مذاکرات کر رہا ہے جبکہ تاحال اس بارے میں کوئی سمجھوتہ طے نہیں پا سکا۔ 

اقوام متحدہ میں سیاسی امور اور قیام امن کے شعبے کی انڈر سیکرٹری جنرل نے اس منصوبے کو بحال کرنے کے لیے ہونے والی بات چیت کی معطلی پر افسوس کا اظہار کیا جبکہ امریکہ سمیت تمام شرکا نے تصدیق کی ہے کہ اس منصوبے پر مکمل اور موثر طریقے سے عملدرآمد کرنا ہی مسئلے کا واحد قابل عمل حل ہے۔

 روزمیری ڈی کارلو نے کہا کہ اس معاہدے کو سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کے ذریعے وضع کیا گیا اور اسی کے تحت معاہدے کی توثیق کی گئی تھی۔ اس منصوبے کی رو سے ایران کی جوہری تنصیبات صرف پُرامن مقاصد کے لیے استعمال ہوں گی۔ اس کے جواب میں ایران پر عائد پابندیاں اٹھا لی جائیں گی جس سے ایران کے لوگوں کو ٹھوس معاشی فوائد حاصل ہوں گے۔ 

انہوں نے امریکہ سے سیکرٹری جنرل کی اس اپیل کو دہرایا کہ وہ ایران پر اپنی پابندیاں اٹھائے یا ان میں نرمی کرے اور ایران کے ساتھ تیل کی تجارت کے حوالے سے چھوٹ میں توسیع دے۔ انہوں نے سیکرٹری جنرل کے ایران سے کیے گئے مطالبے کو بھی دہرایا کہ وہ ایسے اقدامات واپس لے جو اس منصوبے کے تحت جوہری معاملات سے متعلق اس کی ذمہ داریوں سے مطابقت نہیں رکھتے۔

ایران کے دارالحکومت تہران کا ایک منظر۔
Unsplash/Anita Filabi
ایران کے دارالحکومت تہران کا ایک منظر۔

آئی اے ای اے کے احتیاطی اقدامات 

انہوں نے کہا کہ جوہری توانائی کے عالمی ادارے (آئی اے ای اے) اور ایران کی جانب سے مارچ میں ایک مشترکہ خوش آئند بیان کے بعد ایسی ورکشاپوں میں نگران کیمرے نصب کیے گئے تھے جہاں سینٹری فیوج کے پرزہ جات تیار کیے جاتے ہیں۔ 

 اقوام متحدہ کی سرپرستی میں کام کرنے والے جوہری نگران ادارے نے مئی میں یہ اطلاع بھی دی تھی کہ اسے اعلیٰ درجے پر افزودہ کی گئی یورینیم کی موجودگی کے حوالے سے مزید خدشات نہیں رہے جو ایک جوہری مرکز میں پائی گئی تھی۔ 

تاہم اقوام متحدہ کو اس بات پر بدستور تشویش ہے کہ ادارہ ابھی تک ملک میں افزودہ یورینیم کے ذخیرے کی تصدیق نہیں کر سکا۔ آئی اے ای اے کے اندازوں کا حوالہ دیتے ہوئے روزمیری ڈی کارلو نے کہا کہ اب ایران کے پاس افزودہ یورینیم کے مجموعی ذخائر 'جے سی پی او اے' کے تحت مقررہ حد سے 20 گنا سے بھی زیادہ ہیں۔ ان میں 20 اور 60 فیصد تک افزودہ کی گئی یورینیم کی پہلے سے زیادہ مقدار بھی شامل ہے۔ 

متضاد آرا

اس معاہدے کی بیلسٹک میزائل کے حوالے سے شرائط پر بات کرتے ہوئے انہوں نے فرانس، جرمنی، ایران، اسرائیل، روس اور برطانیہ کی جانب سے موصولہ معلومات کا حوالہ دیا جن کے مطابق مارچ میں ایران کی جانب سے خلائی جہاز کا تجربہ کیا گیا اور مئی و جون میں تجرباتی طور پر دو نئے بیلسٹک میزائل بھی داغے گئے۔ 

انہوں نے سلامتی کونسل میں سفیروں کو بتایا کہ رکن ممالک کی جانب سے موصول ہونے والے خطوط میں اس حوالے سے متضاد آرا کا اظہار کیا گیا ہے کہ آیا یہ تجربہ اور میزائلوں کی تیاری قرارداد کی خلاف ورزی ہیں یا نہیں۔ 

بہترین دستیاب راستہ 

'جے سی پی او اے' میں شامل ممالک کی جانب سے کونسل میں کڑی مخالفانہ آرا کے باوجود انہوں نے کہا کہ ایران کے جوہری پروگرام کو پُرامن رکھنے اور اسے اپنی پوری معاشی صلاحیتوں سے کام لینے کا یقینی موقع دینے کے لیے یہی واحد بہترین راستہ ہے۔