انسانی کہانیاں عالمی تناظر

اذیت کا بطور جنگی ہتھیار استعمال بند کرنے کا مطالبہ

اذیت دینا عالمی قوانین کے تحت جرم ہے۔
© Unsplash/Marcin Czerniawski
اذیت دینا عالمی قوانین کے تحت جرم ہے۔

اذیت کا بطور جنگی ہتھیار استعمال بند کرنے کا مطالبہ

انسانی حقوق

تشدد کے متاثرین سے یکجہتی کے عالمی دن پر اقوام متحدہ کے ماہرین نے مسلح تنازعات کے دوران تشدد سے کام لینے کی قطعی ممانعت کے مطالبے کو دہراتے ہوئے تشدد کے آلات کی بین الاقوامی تجارت ختم کرنے پر زور دیا ہے۔

فی الوقت دنیا بھر میں 100 سے زیادہ مسلح تنازعات جاری ہیں جو لوگوں کو تباہ کر رہے ہیں، ترقی کا پہیہ واپس موڑ رہے ہیں اور انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کا سبب بن رہے ہیں۔

Tweet URL

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر تُرک نے کہا ہے کہ شدید مارپیٹ سے جنسی بدسلوکی اور زیادتی تک تشدد کو بڑے پیمانے پر جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ عام طور پر تشدد کے لئے آلات یا مخصوص سازوسامان کا استعمال ہوتا ہے، بناوٹی سزائے موت سے کام لیا جاتا ہے اور متاثرین کو ان کے اہلخانہ پر بھی تشدد ہوتے دکھایا جاتا ہے۔ 

تشدد سرکاری حراستی مراکز کے علاوہ خفیہ مقامات پر بھی ہوتا ہے اور ایسے واقعات کی کوئی جانچ پڑتال نہیں کی جاتی۔

وولکر تُرک نے ایک ویڈیو پیغام میں تشدد سے متاثرہ ایک شخص سے ملاقات کا احوال سنایا جس کی ہولناک داستان نے ان پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ یہ داستان سن کر اندازہ ہوتا ہے کہ انسان ایک دوسرے پر کس طرح کے خوفناک مظالم کر سکتے ہیں۔ یہ گہرا گھاؤ عمر بھر اس شخص کے ساتھ رہے گا۔ 

'تشدد ناقابل برداشت ہے' 

تشدد ایک سنجیدہ جرم ہے جس کی بین الاقوامی قانون کے تحت واضح ممانعت کی گئی ہے اور کسی بھی طرح کے حالات میں تشدد کا ارتکاب جائز نہیں۔ 

تشدد کے خلاف اقوام متحدہ کے کنونشن کے تحت تمام ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ تشدد اور ظالمانہ، غیرانسانی یا توہین آمیز سلوک کے الزامات کی تفتیش کریں اور اس کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی ممکن بنائیں۔

'او ایچ سی ایچ آر' کے سربراہ نے کہا کہ تقریباً تمام واقعات میں تشدد کے جرم کا حکم دینے اور اس کا ارتکاب کرنے والے لوگ انصاف سے بچ نکلتے ہیں۔

تشدد کے خلاف انسانی حقوق کے 10 غیرجانبدار ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی اس کنونشن پر عملدرآمد کی نگرانی کرتی ہے اور ممالک کو اپنے تمام فوجی اہلکاروں خصوصاً حراست سے متعلق ذمہ داریاں انجام دینے والوں کو تشدد کی ممانعت سے متعلق تعلیم و آگاہی دینے کے حوالے سے ان کی ذمہ داریاں باقاعدگی سے یاد دلاتی ہے۔ 

کمیٹی کے چیئرمین کلاڈ ہیلر کا کہنا ہے کہ ممالک کو چاہئیے کہ وہ اپنی باقاعدہ مسلح افواج اور اپنے زیراثر تمام فورسز کی جانب سے تشدد کے ارتکاب کی تفتیش اور اس پر قانونی کارروائی کے لئے عدم برداشت کا طریقہ اپنائیں۔ داخلی سطح پر تشدد کو واضح طور پر جرم قرار دینا اس سلسلے میں پہلا اہم قدم ہے۔ 

متاثرین کی مدد 

ہائی کمشنر نے کہا کہ دنیا بھر میں تشویشناک پیمانے پر تشدد کا ارتکاب ہو رہا ہے اور جنگی قیدیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور بے گناہ شہریوں سمیت اس کے ہزاروں متاثرین ہیں جنہیں کبھی بھی اور کسی بھی طرح کے حالات میں ہدف بنایا جا سکتا ہے۔ ایسے ظالمانہ اقدامات ہر براعظم کے بہت سے ممالک میں ہزاروں جگہوں پر رونما ہوتے ہیں۔ 

یہ یقینی بنانا خاص طور پر اہم کہ تشدد کے واقعات کی تفصیل جمع کی جائے، تفتیش کی جائے، ایسے واقعات پر قانونی کارروائی ہو اور ان کے ذمہ داروں کو سزا ملے۔ 

حقائق تک پہنچنے اور احتساب کی کوشش کرنے سے تشدد کے متاثرین کی کو انتہائی ضروری طور پر درکار مدد فراہم کی جا سکتی ہے۔ 

وولکر تُرک کا کہنا ہے کہ تشدد کے تمام متاثرین کا حق ہے کہ ان کے ساتھ پیش آنے والے مظالم کا اعتراف کیا جائے، انہیں انصاف فراہم کیا جائے اور ان کی تکالیف کا ازالہ ممکن بنایا جائے۔