انسانی کہانیاں عالمی تناظر

یوکرین: روسی ٹارچر اور بجلی گھروں پر حملے انسانیت کے خلاف ممکنہ جرائم

یوکرین کا شمال مشرقی شہر خارکیو بمباری سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔
© UNOCHA/Matteo Minasi
یوکرین کا شمال مشرقی شہر خارکیو بمباری سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔

یوکرین: روسی ٹارچر اور بجلی گھروں پر حملے انسانیت کے خلاف ممکنہ جرائم

امن اور سلامتی

انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے مقرر کردہ غیرجانبدار تفتیش کاروں کی جانب سے جاری تحقیقات کے تازہ ترین نتائج سامنے آنے کے بعد یوکرین میں روس کی افواج کو جنگی جرائم کے نئے الزامات کا سامنا ہے۔

انسانی حقوق کونسل کی درخواست پر ایک سال قبل یوکرین کے بارے میں قائم کیے جانے والے تحقیقاتی کمیشن کے مطابق روس کی فوجوں نے ملک بھر میں ''وسیع پیمانے پر'' انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی ہیں جن میں بہت سے واقعات جنگی جرائم کی ذیل میں آتے ہیں۔

Tweet URL

ان میں گنجان آباد علاقوں میں دھماکہ خیز ہتھیاروں سے حملے، شہریوں کو جان بوجھ کر قتل کرنا، غیرقانونی قید، تشدد، جنسی زیادتی اور دیگر طرح کا جنسی تشدد اور بچوں کی غیرقانونی منتقلی اور ملک بدری بھی شامل ہیں۔

علاوہ ازیں یوکرین میں توانائی کے نظام پر روس کے حملوں سے لاکھوں لوگ شدید سردی میں بجلی سے محروم ہو گئے ہیں۔ 

کمیشن کے چیئرپرسن ایرک موز نے جینیوا میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے علم میں آیا ہے کہ ''10 اکتوبر 2022 سے یوکرین میں توانائی کی تنصیبات پر روس کی مسلح افواج کے حملے اور روس کے حکام کی جانب سے تشدد کے واقعات انسانیت کے خلاف جرائم میں شمار ہو سکتے ہیں۔ انہوں ںے ایسے واقعات کی مزید تحقیقات کرنے کی سفارش کی۔

اس رپورٹ میں یوکرین کے نو علاقوں کا جائزہ لیا گیا، تفتیش کاروں نے 56 شہروں کا دورہ کیا اور 600 عینی شاہدین سے بات چیت کی۔

شہری تنصیبات پر حملے

کمشنروں کے مطابق روس کی مسلح افواج نے ایسے علاقوں میں ''اندھا دھند اور غیرمتناسب'' حملے کیے جہاں عام شہری بڑی تعداد میں آباد ہیں اور یہ حملے بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی ہیں۔

یہ حملے رہائشی عمارتوں، ہسپتالوں اور دکانوں پر کیے گئے جن کے نتیجے میں عام شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں اور ان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ روس کی مسلح افواج کی جانب سے شہریوں کی ہلاکت کو کم سے کم رکھنے کی شرط سے روگردانی کی گئی ہے۔''

منظم تشدد کی مزید تحقیقات کی ضرورت

رپورٹ کے ایک اہم نتیجے کا تعلق روس کی مسلح افواج کے زیرتسلط علاقوں میں ''بڑے پیمانے پر'' لوگوں کو قید میں ڈالے جانے سے ہے اور ان قیدیوں کو روسی حکام کی جانب سے متواتر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

کمشنر پبلو ڈی گریف نے کہا کہ جن جگہوں پر تحقیقات کی گئیں وہاں روس کے حکام نے ''منظم'' انداز میں تشدد سے کام لیا اور اس حوالے سے ''منصوبہ بندی اور ذرائع کی دستیابی'' سے ظاہر ہوتا ہے کہ روس کے حکام نے ممکنہ طور پر انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کمیشن نے یہ طے کرنے کے لیے مزید تحقیقات کی سفارش کی کہ آیا یہ خلاف ورزیاں کسی مخصوص پالیسی کا تسلسل تھیں۔

یوکرین کے دارالحکومت کیئو کا مضافاتی علاقہ بورویانکا جو فضائی بمباری سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔
© UNOCHA/Matteo Minasi
یوکرین کے دارالحکومت کیئو کا مضافاتی علاقہ بورویانکا جو فضائی بمباری سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔

جنسی تشدد اور بچوں کی ملک بدری

رپورٹ میں روس کی فوج کے اہلکاروں کی جانب سے جنسی زیادتی اور تشدد کے ''متعدد'' واقعات پر روشی ڈالی گئی جن میں خاص طور پر روس کے زیر تسلط شہروں میں گھروں کی تلاشی کے دوران پیش آنے والے واقعات شامل ہیں۔ کمشنر جیسمینکا زومور نے کہا کہ ان متاثرین میں مرد، خواتین اور بچے بھی ہیں جن میں کی عمر 4 سال سے 82 سال تھی۔

روس کی جانب سے ایک اور جنگی جرم کا ارتکاب بچوں کی منتقلی اور ملک بدری کی صورت میں کیا گیا جنہوں ںے اپنے والدین کو کھو دیا یا انہیں یوکرین میں ان کے والدین سے الگ کر کے روس لے جایا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ''تحفظ کی فراہمی یا طبی وجوہات'' اس منتقلی کا جواز نہیں ہیں اس لیے یہ بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی ہے۔

محاسبے کی ضرورت

اس رپورٹ میں متاثرین کو ہونے والے ''شدید نقصان اور صدمے'' پر روشنی ڈالی گئی ہے اور یہ سفارش کی گئی ہے کہ تشدد اور جرائم کا ارتکاب کرنے والے تمام لوگوں کا انسانی حقوق کے قومی یا بین الاقوامی معیارات کی مطابقت سے قانونی کارروائی کے ذریعے احتساب ہو۔ 

کمیشن نے احتساب کے لیے ''جامع'' طریقہ کار وضع کرنے کو بھی کہا جس میں جرم کی ذمہ داری اور متاثرین کا سچائی جاننے، ازالے اور نقصان سے آگاہی کا حق اور ایسے واقعات کی  عدم تکرار بھی شامل ہیں۔