انسانی کہانیاں عالمی تناظر

فیصلہ سازی میں نوجوانوں کی شرکت خانہ پُری نہیں ہونی چاہیے: عائشہ

عائشہ یہ بات بڑے اعتماد سے کہتی ہیں کہ گزشتہ تین سالوں میں اقوام متحدہ کے سربراہ کی تقریروں میں موسمیاتی بحران پر جو تشویش اور جذبہ سننے کو مل رہا ہے اس کے پیچھے ان کے نوجوان مشیر ہیں۔
UN/Climate Action
عائشہ یہ بات بڑے اعتماد سے کہتی ہیں کہ گزشتہ تین سالوں میں اقوام متحدہ کے سربراہ کی تقریروں میں موسمیاتی بحران پر جو تشویش اور جذبہ سننے کو مل رہا ہے اس کے پیچھے ان کے نوجوان مشیر ہیں۔

فیصلہ سازی میں نوجوانوں کی شرکت خانہ پُری نہیں ہونی چاہیے: عائشہ

موسم اور ماحول

موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کے سربراہ کے یوتھ ایڈوائزری گروپ کی پاکستانی نژاد امریکی رکن عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ نوجوانوں کو مشاورت اور فیصلہ سازی میں محض خانہ پری یا ان کا کوٹہ پورا کرنے کے لیے شامل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

یو این نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ اور حکومتی اداروں میں نوجوانوں کی موجودگی احسن اقدام ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ عائشہ صدیقہ کے مطابق موسمیاتی تبدیلی اور اس سے جنم لینے والے مسائل مستقبل میں جا کر آج کے نوجوانوں کو سب سے زیادہ پریشان کرینگے، اس لیے ان کی بات توجہ سے سنی جانی چاہیے۔

جھنگ سے نیو یارک

پاکستان کے ضلع جھنگ میں پیدا ہونے والی عائشہ صدیقہ بتاتی ہیں کہ ان کے آباؤ اجداد کاشتکاری کرتے اور دریاؤں یا کنوؤں سے پانی حاصل کرتے تھے اور انہوں نے موسمیاتی تبدیلی کے زراعت پر منفی اثرات کو بھگتا ہے۔ وہ بچپن میں ہی اپنے والدین کے ساتھ امریکہ منتقل ہوگئیں جسے وہ ہجرت کہتی ہیں اور محدود وسائل میں ان کو جو گھر ملا وہ نیو یارک کے جزیرے کونی آئی لینڈ میں تھا، اور یوں انہیں ایک بار پھر بدلتے موسموں اور فطرت کے ساتھ رہنا پڑا۔

عائشہ کہتی ہیں کہ اگر آپ کم وسیلہ ہیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آیا آپ جھنگ میں رہ رہے ہیں یا نیو یارک میں، آپ ہر جگہ بے اختیار اور حالات کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں، اور آپ کے لیے خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

عائشہ نے نیو یارک کے ہنٹر کالج سے علم سیاسیات اور انگلش میں گریجویشن کیا اور اپنے پس منظر کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی اور ماحول بارے ہمیشہ متفکر رہیں۔ موسمیاتی تبدیلی اور ماحول پر ہونے والی اکثر کانفرنسوں میں وہ یا تو ماہرین کے پینل کے ساتھ بیٹھی نوجوانوں کی نمائندگی کر رہی ہوتی ہیں یا موسمیاتی انصاف کے حق میں باہر کھڑے مظاہرین کو اپنی مزاحمتی شاعری سے جوش دلاتی نظر آتی ہیں۔

موسمیاتی بحران اور اس کے حل کی تلاش پر عائشہ کی اب تک کی خدمات کے اعتراف کے طور پر مشہور میگزین ٹائم نے انہیں دنیا کی ان بااثر خواتین کی اپنی 2023 کی فہرست میں شامل کیا ہے.
UN News
موسمیاتی بحران اور اس کے حل کی تلاش پر عائشہ کی اب تک کی خدمات کے اعتراف کے طور پر مشہور میگزین ٹائم نے انہیں دنیا کی ان بااثر خواتین کی اپنی 2023 کی فہرست میں شامل کیا ہے.

 

 

نوجوان بمقابلہ ٹیکنوکریٹ

عائشہ بتاتی ہیں کہ جب مسائل، موسمیاتی بحران اور قدرتی آفات آتی ہیں تو ان سمیت دوسرے نوجوانوں کو کہا جاتا ہے کہ ان کا حل تجویز کریں اور اس کے لیے پیشہ ور افراد،  حکومتی نمائندوں، اور ان لوگوں کے ساتھ بیٹھیں جنہیں اس کام کا معاوضہ دیا جاتا ہے۔ ’اس موقع پر ہم سے توقع رکھی جاتی ہے کہ نا صرف ہم مسائل کو انہی کی طرح سمجھیں گے بلکہ ہمارے تجویز کردہ حل اور ہمارا علم بھی انہی جیسا ہو گا۔‘

عائشہ کہتی ہیں کہ اس کے باوجود نوجوان عالمی مسائل خاص طور پر موسمیاتی بحران سے نمٹنے کا حل پیش کر رہے ہیں اور ان میں بہت سے ایسے ہیں جو اپنے جذبے کے بل بوتے پر ماہرین اور پیشہ ور بن گئے ہیں، وہ ایسا کسی کے کہنے پر نہیں کر رہے بلکہ اس کی وجہ ہنگامی حالات ہیں جنہیں سمجھنے اور ان سے نمٹنے کے لیے وہ ایسا کر رہے ہیں۔

نوجوانوں کا اثر

عائشہ یہ بات بڑے اعتماد سے کہتی ہیں کہ گزشتہ تین سالوں میں اقوام متحدہ کے سربراہ کی تقریروں میں موسمیاتی بحران پر جو تشویش اور جذبہ سننے کو مل رہا ہے اس کے پیچھے ان کے نوجوان مشیر ہیں جو انہیں ان مسائل پر اپنی تجاویز دیے رکھتے ہیں۔

موسمیاتی بحران اور اس کے حل کی تلاش پر عائشہ کی اب تک کی خدمات کے اعتراف کے طور پر مشہور میگزین ٹائم نے انہیں دنیا کی ان بااثر خواتین کی اپنی 2023 کی فہرست میں شامل کیا ہے جو منصفانہ اور بہتر دنیا کے قیام کی کوششوں کی قیادت کر رہی ہیں۔ بااثر خواتین کی اس فہرست میں معروف اداکارہ کیٹ بلانچیٹ اور برازیل کی وزیر برائے نسلی مساوات انیل فرانکو بھی شامل ہیں۔

عائشہ کا کہنا ہے کہ موسمیاتی بحران پر قابو پانے اور تحفظ ماحول کی جدوجہد کی خاص بات یہ ہے کہ چاہے پاکستان ہو یا دنیا کا کوئی اور ملک اس کی قیادت لڑکیاں کر رہی ہیں۔