انسانی کہانیاں عالمی تناظر

’ہمارا مستقبل چھینا جا رہا ہے‘ نوجوانوں نے کاپ 27 مذاکرات کاروں کو دی دُہائی

بنگلہ دیش کے علاقے سلہٹ میں پروتا کا سکول شدید بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے بند پڑا ہے اور اس کا گھر بھی سیلاب کی زد میں ہے۔
© UNICEF/Parvez Ahmad Rony
بنگلہ دیش کے علاقے سلہٹ میں پروتا کا سکول شدید بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے بند پڑا ہے اور اس کا گھر بھی سیلاب کی زد میں ہے۔

’ہمارا مستقبل چھینا جا رہا ہے‘ نوجوانوں نے کاپ 27 مذاکرات کاروں کو دی دُہائی

موسم اور ماحول

بینروں، پوسٹروں، میگا فون اور خاص طور پر سائنسی و معاشی حقائق پر مبنی اور دل کو جھجھوڑ دینے والے پیغامات لیے نوجوان  جمعرات کو کاپ 27 کے انعقاد کے مقام پر پھیل گئے اور مذاکرات کاروں سے مطالبہ کیا کہ وہ موسمیاتی تبدیلی سے ترقی پذیر ممالک کو ہونے والے نقصان کے ازالے کا مسئلہ حل کریں۔

آج تونینو لمبرگینی انٹرنیشنل کانفرنس سنٹر میں ہونے والے ایسے ایک احتجاجی مظاہرے میں شریک ایک افریقی نوجوان کا کہنا تھا کہ ''موسمیاتی آفتیں اور تباہی آ رہی ہیں اور میرا ملک ان کے اثرات سے نمٹنے کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ اور عالمی بینک سے قرض لینے پر مجبور ہو گیا ہے۔ ہمارے ممالک موسمیاتی بحران سے نمٹنے پر اٹھنے والے بھاری اخراجات کے باعث ترقی نہیں کر سکتے۔''

اس کا کہنا تھا کہ''ہمارے مستقبل ہم سے چھینے جا رہے ہیں اور یہ ناانصافی ہے۔''

'نقصان اور ازالے' سے مراد وہ اخراجات ہیں جو ایسے ممالک کو برداشت کرنا پڑتے ہیں جن کا موسمیاتی تبدیلی لانے میں بہت کم کردار ہے لیکن وہ سطح سمندر میں اضافے اور موسمی شدت کے بڑھتے ہوئے عام واقعات کی صورت میں اس کے اثرات جھیل رہے ہیں۔

اس وقت ترقی پذیر ممالک جیسا کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور بہت سے افریقی ملک موسمیاتی وجوہات کی بنا پر آنے والی تباہی سے بحالی کی بہت بھاری قیمت چکانے پر مجبور ہیں اور نوجوان سمجھتے ہیں کہ اب وقت آگیا ہے کہ سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والے ممالک اپنا ماحولی قرض ادا کریں۔

کاپ 27 کے دوران موسمیاتی مسائل پر نوجوان کارکنوں نے نقصان اور تباہی کے پر مظاہروں کے ذریعے اپنی آواز بلند کی۔
UN News/Laura Quiñones
کاپ 27 کے دوران موسمیاتی مسائل پر نوجوان کارکنوں نے نقصان اور تباہی کے پر مظاہروں کے ذریعے اپنی آواز بلند کی۔

نوجوانوں کا مطالبہ واضح تھا۔ وہ نقصان اور ازالے سے متعلق مالی وسائل فراہم کرنے کے لیے کہہ رہے تھے جن کے ذریعے ترقی پذیر ممالک کو ایسے اضافی اور فوری طور پر دستیاب مالی وسائل مہیا ہو سکتے ہیں جن کی مدد سے وہ ناصرف موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے مطابقت اختیار کر سکتے ہیں بلکہ ''نوجوانوں پر اس کے ناقابل واپسی اور زندگی کو تبدیل کر دینے والے اثرات'' کو بھی محدود رکھ سکتے ہیں۔

سائنسی برادری کی تائید

سالانہ رپورٹ 'موسمیاتی سائنس میں 10 نئے فکری پہلو' کاپ میں ہونے والی بات چیت کے لیے اپنے نام کی مناسبت سے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق تحقیق پر انتہائی اہم نتائج کا جامع تجزیہ پیش کرتی ہے اور اس میں نقصان اور ازالے کو ''کرہ ارض کے لیے ہنگامی لازمہ'' قرار دیتے ہوئے اس مسئلے کو حل کرنے کی اہمیت واضح کی گئی ہے۔

اس جمعرات کو کاپ 27 میں 'نوجوانوں اور سائنس کے دن' پر رپورٹ کا اجرا کرتے ہوئے سائنس دانوں نے واضح کیا کہ نقصانات پہلے ہی ہو رہے ہیں اور موسمیاتی تبدیلی کی حالیہ رفتار کو دیکھا جائے تو آنے والے وقت میں ان میں نمایاں اضافہ ہو گا۔

Tweet URL

رپورٹ کے مصنفین نے اس معاملے پر پالیسی سے متعلق مربوط عالمگیر اقدام کی''ہنگامی'' ضرورت کا مطالبہ کرتے ہوئے خبردار کیا ہےکہ ''اگرچہ بہت سے نقصانات کا مالی اعتبار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے لیکن بہت سے غیرمعاشی نقصانات بھی ہیں جنہیں بہتر طریقے سے سمجھنے اور انہیں جانچنے کی ضرورت ہے۔''

کلائمیٹ ریسرچ پروگرام کی مرتب کردہ اور یو این کلائمیٹ چینج (یو این ایف سی سی سی) کے تعاون سے تیار کی جانے والی اس رپورٹ میں یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے ایسے بہت سے نتائج سے محض مطابقتی طریقے اختیار کر کے بچاؤ ممکن نہیں ہے اور گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کے لیے فوری اقدام کرنا کہیں زیادہ بہتر ہو گا۔

نقصان اور تباہی کے ازالے پر زور

یو این ایف سی سی سی کے سربراہ سائمن سٹیئل کا کہنا ہے کہ ''رپورٹ ہمیں بتاتی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے کا امکان لامحدود نہیں ہے اور اس سے ان تمام نقصانات کو روکنا ممکن نہیں جن کا ہم اس وقت مشاہدہ کر رہے ہیں۔ میں کاپ 27 میں اس ایجنڈے پر کام کے لیے فریقین کی ستائش کرتا ہوں۔''

تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر اقدامات کرنے والے ممالک کو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کے لیے اپنے ذمہ داری بھی پوری کرنا ہو گی۔

انہوں ںے واضح کیا کہ ''مطابقتی اقدامات گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو محدود کرنے کے لیے پُرعزم اقدامات کا متبادل نہیں ہو سکتے۔''