انسانی کہانیاں عالمی تناظر

نائب سربراہ امینہ محمد نے سپین میں نوجوانوں کو بتایا کہ اقوام متحدہ ان کا ادارہ ہے

نائب سربراہ امینہ محمداقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف پر مکالمہ کے لیے سپین کے شہر بِلباؤ میں نوجوانوں کی ایک تقریب میں شریک ہیں۔
UNWTO/Kamal Baghirli
نائب سربراہ امینہ محمداقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف پر مکالمہ کے لیے سپین کے شہر بِلباؤ میں نوجوانوں کی ایک تقریب میں شریک ہیں۔

نائب سربراہ امینہ محمد نے سپین میں نوجوانوں کو بتایا کہ اقوام متحدہ ان کا ادارہ ہے

پائیدار ترقی کے اہداف

سپین کے شہر میڈرڈ میں سوموار کو نوجوان رہنماؤں اور اقوام متحدہ کے اعلیٰ حکام کے مابین بات چیت کا ایک موضوع یہ تھا کہ اقوام متحدہ سبھی لوگوں کے مزید مستحکم مستقبل کے لیے جدوجہد کرنے والے نوجوانوں کی بہتر انداز میں کیسے مدد کر سکتی ہے۔

اقوام متحدہ کی نائب سیکرٹری جنرل امینہ محمد اور اس کے شہری ترقی سے متعلق ادارے یو این ہیبیٹیٹ کی سربراہ میمونہ مُحد شریف شہروں کے عالمی دن کے تناظر میں سپین کے دورے پر تھیں جو ہر سال 31 اکتوبر کو منایا جاتا ہے اور اس موقع پر ان کی موجودگی سے فائدہ اٹھا کر ان کے ساتھ بات چیت کی گئی۔

Tweet URL

نوجوان پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جی) کے حوالے سے مقامی اور عالمگیر سطح پر آواز بلند کرنے والی تنظیموں اور اداروں کے بڑھتے ہوئے نیٹ ورک کا لازمی جزو ہیں۔ یہ اہداف 2030 کے آخر تک مزید منصفانہ، مساوی اور ''ماحول دوست'' دنیا تشکیل دینے کی یقین دہانی کراتے ہیں۔

نوجوانوں کے ساتھ بات چیت

موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات اور سماجی انصاف کے مضبوط حامی ہونے کے ناطے ان نوجوانوں کا ایسی پائیدار ترقی کے حصول کی کوششوں میں اہم کردار ہے جن سے پوری دنیا اور کرہ ارض کو فائدہ پہنچتا ہے۔

امینہ محمد نے چند ابتدائی کلمات کے بعد واضح کیا کہ نوجوانوں کے ساتھ بات چیت خصوصاً حالیہ عالمگیر بحران کے ہوتے ہوئے ان سے تبادلہ خیال کیوں ضروری ہے۔

اقوام متحدہ واضح کر رہا ہے کہ کووڈ۔19 وبا، موسمیاتی حوالے سے ہنگامی صورتحال اور جنگوں بشمول یوکرین کی جنگ کے اثرات لاکھوں لوگوں پر مرتب ہو رہے ہیں اور انہوں نے پائیدار ترقی کے اہداف کا حصول خطرے میں ڈال دیا ہے۔

نائب سیکرٹری جنرل نے کہا کس طرح اقوام متحدہ کے پورے نظام میں نوجوانوں اور صنفی مساوات کو مرکزی دھارے میں لایا جانا چاہیے اور اس کی ادارے کے ہر کام میں عکاسی ہونی چاہیے۔

انہوں ںے اپنے سامعین سے یہ بھی پوچھا کہ وہ خود اور اقوام متحدہ ان کی کیسے مدد کر سکتے ہیں۔

مستقبل کے رہنما

اس موقع پر میمونہ شریف کا کہنا تھا کہ دنیا بھر کی 60 فیصد سے زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور ان میں تقریباً 70 فیصد شہروں میں رہتے ہیں جو ناصرف شہری امور پر نئی چیزیں سامنے لا رہے ہیں بلکہ وہ مستقبل کے رہنما بھی ہیں۔

انہوں نے یاد کیا کہ 2016 میں ایکواڈور کے شہر کوئٹو میں ہاؤسنگ اور پائیدار شہری ترقی کے موضوع پر اقوام متحدہ کی ہیبیٹیٹ تھری کانفرنس میں نوجوانوں نے اس وقت تک ہونے والی عالمگیر ترقی کا جائزہ لینے کے لیے خود اپنا معیار مقرر کیا تھا۔

اقوام متحدہ کی دونوں عہدیداروں نے سپین میں مختلف شعبوں کے نمائندوں کو اس بات چیت میں شرکت کی دعوت دینے کی حوصلہ افزائی کی۔

علم اور وکالت

اقوام متحدہ میں پناہ گزینوں کے ادارے 'یو این ایچ سی آر' میں نوجوانوں کی نمائندہ لینا عامر بھی بات چیت کرنے والے نوجوان رہنماؤں میں شامل تھیں جنہوں ںے صحت اور بیماریوں کی روک تھام کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔ انہوں نے بتایا کہ سیاست میں حصہ لینے کے حوالے سے نوجوانوں کی خوف اور عدم تحفظ جیسے عوامل کے ذریعے کیسے حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس پر قابو پانے کے لیے علم کا ہونا ضروری ہے اور فیصلہ سازوں کو چاہیے کہ وہ ایسے مزید پروگرام شروع کریں جن سے نوجوانوں کو اعتماد مل سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مسائل کے مشترکہ حل ڈھونڈنے کے لیے عمر کے اعتبار سے مزید جگہیں بنانے کی ضرورت ہے جبکہ سیاسی بحث میں نوجوانوں کی آراء کو شامل کرنے کے لیے مخصوص سہولتیں مہیا کی جانی چاہئیں۔

غیرمنفعی تنظیم 'سی آئی ایف اے ایل مالاگا'' سے تعلق رکھنے والے ہوزے مارٹن نے کہا کہ نوجوان قیادت کے فروغ کے لیے تربیت اور حمایت کی ضرورت ہوتی ہے۔

نوجوانوں کو دنیا، ماحولی و سماجی امور اور معاشی استحکام نیز 2030 کے ایجنڈے کی مستقبل کے لائحہ عمل کی حیثیت سے بھرپور سمجھ بوجھ ہونی چاہیے اور اس تربیت کو کنڈرگارٹن سے یونیورسٹی تک ہر تعلیمی درجے میں شامل کیا جانا چاہیے۔

متحرک اور عملی نوعیت کی ورکشاپوں کے ذریعے حمایت کے حصول کا کام کیا جانا ضروری ہے جہاں نوجوان رہنمائی کی ذمہ داریاں سنبھالنے کی اہلیت حاصل کرتے ہیںار اپنی آراء اور نقطہ ہائے نظر کا تبادلہ کر سکتے ہیں۔

اقوام متحدہ نوجوانوں کا ہے

اپنی بات کے اختتام پر امینہ محمد کا کہنا تھا کہ ہر نسل کو مستعد ہونے کی ضرورت ہے۔

آج نوجوانوں کے پاس سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم ہیں اور اگرچہ یہ رابطوں کے بہت بڑے ذرائع ہیں تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ ان کے ذریعے لوگ وسیع تر دنیا اور بہت سے امکانات کے بجائے چیزوں کو تنگ نظری سے دیکھنے پر مائل ہو سکتے ہیں۔

انہوں ںے نمائندگی کی اہمیت اور نوجوانوں کے لیے گنجائشیں پیدا کرنے کی ضرورت پر بات کی اور کہا کہ نوجوانوں کو خود بھی اپنے مطالبات منوانا ہوں گے۔

نائب سیکرٹری جنرل نے کہا کہ اقوام متحدہ کو چاہیے کہ وہ نوجوانوں کو بات کرنے کا موقع دے اور انہیں سنا جائے۔

انہوں نے اتفاق کیا کہ ہمیں عمر کے اعتبار سے مختلف نسلوں کے مابین بات چیت اور نئی طرز کے سماج کی ضرورت ہے تاکہ ان رکاوٹوں کو دور کیا جا سکے جو معاشروں میں نوجوانوں اور بوڑھوں اور ارکان پارلیمان اور ووٹروں جیسی صورت میں ہمیں منقسم کرتی ہیں۔

آخر میں انہوں ںے شرکا کو یاد دلایا کہ اقوام متحدہ نوجوانوں کا ہے لہٰذا انہیں اقوام متحدہ کو اپنانا چاہیے اور اس کی تشکیل نو کرنی چاہیے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جمہوریت بھی نوجوانوں کی ہے لیکن بہت سے نوجوان ووٹ نہیں دیتے جس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت میں ان کی نمائندگی بھی نہیں ہوتی۔

انہوں نے نوجوانوں سے کہا کہ وہ جمہوریت کا دفاع کریں، اس کے لیے لڑیں اور نوجوانوں کے حقوق کا تحفظ کریں۔