انسانی کہانیاں عالمی تناظر

پاکستان سیلاب: قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے والی تعمیرات زیر غور

پاکستان کے صوبہ سندھ میں سیلاب سے منہدم ہو جانے والی ایک عمارت۔
© UNOPS/Imran Karim Khattak
پاکستان کے صوبہ سندھ میں سیلاب سے منہدم ہو جانے والی ایک عمارت۔

پاکستان سیلاب: قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے والی تعمیرات زیر غور

موسم اور ماحول

ترقیاتی منصوبوں کے انتظام و دیکھ بھال کے لیے اقوام متحدہ کا ادارہ یو این او پی ایس جہاں پاکستان میں گزشتہ سال مون سون کی تباہ کن بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کاموں میں سہولت کار کے طور پر کام کر رہا ہے وہیں مستقبل میں موسمیاتی شدت کا مقابلہ کرنے والی عمارتوں کی تعمیر میں مدد کا جائزہ بھی لے رہا ہے۔

یو این او پی ایس نے ورلڈ بینک اور حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر 'تباہی کے بعد پیش آنے والی ضروریات کے تخمینے' میں بھی مدد دی ہے اور ماحول دوست عمارتوں کی تعمیرکے لئے رہنمائی کا جائزہ لینے کے لئے تعمیراتی شعبے کے ساتھ رابطے میں ہے تاکہ بنیادی ڈھانچے کو شدید موسمیاتی اثرات کو جھیلنے کے قابل بنایا جا سکے۔

یو این او پی ایس ورلڈ بینک کے مہیا کردہ 70 لاکھ ڈالر کے ذریعے حکومت کو تیس لاکھ مچھردانیاں اور دس لاکھ خیمے خریدنے میں مدد دے رہا ہے۔ اب تک 27,000 خیمے اور بائیس لاکھ مچھردانیاں صوبہ سندھ میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے کے حوالے کی جا چکی ہیں۔

گزشتہ برس آنے والے تباہ کن سیلاب نے پاکستان میں بہت بڑے علاقے میں بربادی پھیلائی۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے اسے مون سون کی شدید ترین صورت قرار دیا ہے۔

سیلابی ریلے میں میر محمد جمالی کے مال مویشی اور جمع پونجی بہہ گئے اور بہت کم سامان تھا جو وہ ساتھ لا سکے۔
© UNOPS
سیلابی ریلے میں میر محمد جمالی کے مال مویشی اور جمع پونجی بہہ گئے اور بہت کم سامان تھا جو وہ ساتھ لا سکے۔

غیر متوقع تباہی

سیلاب نے ملک کو وسیع پیمانے پر متاثر کیا جس میں دیہی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو خاص طور پر شدید نقصان پہنچا۔ اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ موسمی شدت کے اس غیرمعمولی واقعے میں 1,700 سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے اور تین کروڑ تیس لاکھ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے۔ اپنے عروج پر اس سیلاب نے ملک کے ایک تہائی رقبے کو ڈبو دیا اور وسیع علاقوں کو تاراج کر کے رکھ دیا۔

میر محمد جمالی اس دن کو یاد کرتے ہیں جب انہوں ںے اپنے گھر اور گاؤں کو تباہ ہوتے دیکھا۔ ان کا خاندان بیس افراد پر مشتمل ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ گزشتہ سال جولائی میں جب سیلابی ریلا ان کے علاقے میں پہنچا تو اس وقت رات کے آٹھ بجے تھے، پورے ملک میں بارشیں ہو رہی تھیں اس لیے ان کا خیال تھا کہ یہ بارش کا پانی ہے جو جلد اتر جائے گا۔

وہ بتاتے ہیں کہ لیکن صبح چھ بجے تک بارش کی شدت میں اضافہ ہوتا گیا اور جب پانی گھروں میں داخل ہونا شروع ہوا تو جان بچانے کے لیے وہاں سے نکلنے کے علاوہ  کوئی چارہ نہ تھا کیونکہ پانی کی سطح پانچ فٹ بلند ہو چکی تھی، سیلابی ریلے میں ان کے مال مویشی اور جمع پونجی بہہ گئے اور بہت کم سامان تھا جو وہ ساتھ لا سکے۔

سیلاب کے فوری اثرات تباہ کن تھے لیکن اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بہت سے بحران بعد میں سامنے آئے اور جو اب تک جاری ہیں۔ ان میں بڑھتی ہوئی غربت، طویل مدتی غذائی عدم تحفظ، ملیریا اور ٹائیفائیڈ جیسی بیماریوں کا پھیلاؤ اور لاکھوں بچوں کی تعلیم میں آنے والی رکاوٹوں جیسے مسائل نمایاں ہیں۔

عمران اور دوسرے ہزاروں بچے سیلاب کی وجہ سے تعلیمی سلسلہ جاری نہیں رکھ پا رہے۔
© UNOPS
عمران اور دوسرے ہزاروں بچے سیلاب کی وجہ سے تعلیمی سلسلہ جاری نہیں رکھ پا رہے۔

تعلیم منقطع

حور جہاں کا گھر بھی سیلاب میں ڈوب گیا ہے اور انہوں نے کئی مہینے خیمے میں گزارے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ سیلاب کے بعد ان کے بچے بیمار ہو گئے جن میں سے ایک بچہ دو مہینے تک شدید بیماری کے باعث قریب المرگ تھا، اسے ملیریا اور شدید بخار کی شکایت تھی۔ حور جہاں کے شوہر میرا شوہر مچھلیاں پکڑتے ہیں اور انہیں شہر میں فروخت کرتے ہیں لیکن وہ بتاتی ہیں کہ اس سے حاصل ہونے والی آمدنی بہت کم ہے جس میں گزارا کرنا مشکل ہے۔

ان کے قریب ہی رہنے والے تیرہ سالہ عمران ڈاکٹر بن کر اپنے علاقے کے لوگوں کے کام آنا چاہتے ہیں۔ تاہم وہ ان کی بہن اور ان کے دوست سیلاب کے بعد سکول نہیں جا سکے اور مستقبل قریب میں بھی ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔

اگرچہ عمران نے پہلی مرتبہ سیلاب دیکھا ہے لیکن میر محمد جمالی، حور جہاں اور بڑی عمر کے دیگر پاکستانیوں کے لئے سیلاب کی تباہ کاریاں کوئی نئی چیز نہیں جو تقریباً ہر دہائی میں آتے ہیں۔ تاہم 2022 کے سیلاب کے بعد دنیا بھر کے موسمیاتی ماہرین کی توجہ اس مسئلے کی جانب مبذول ہوئی ہے جن کا کہنا ہے کہ انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں آنے والی موسمیاتی تبدیلی نے ہی ممکنہ طور پر اس مون سون میں شدت پیدا کی ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کے بہت بڑے حصے میں سیلاب آیا۔

غیر معممولی بارشیں

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے ''موسمیاتی تبدیلیوں کے مقابل مستحکم پاکستان کے لئے بین الاقوامی کانفرنس'' کے موقع پر کہا تھا کہ ''پاکستان کو نقصان اور تباہی کا سامنا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں آنے والی تباہی حقیقت ہے۔ اس کا نتیجہ سیلاب، خشک سالی، طوفانوں اور شدید بارشوں کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ ہر مرتبہ وہی ممالک اس سے بری طرح متاثر ہوتے ہیں جن کا موسمیاتی تبدیلی میں کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔''

پاکستان کے محکمہ موسمیات کے مطابق اگست 2022 میں ملک بھر میں ہونے والی بارشیں اوسط درجے سے 243 فیصد زیادہ شدید تھیں جبکہ صوبہ سندھ میں ان کی شدت اوسط درجے سے 726 فیصد زیادہ تھی۔

گزشتہ سال آنے والے سیلاب سے بے گھر ہونے والے لاکھوں لوگ اب بھی عارضی ٹھکانوں میں رہ رہے ہیں۔
© UNOPS/Imran Karim Khattak
گزشتہ سال آنے والے سیلاب سے بے گھر ہونے والے لاکھوں لوگ اب بھی عارضی ٹھکانوں میں رہ رہے ہیں۔

بدلتے ماحول سے مطابقت کی ضرروت

ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں آنے والا 2022 کا سیلاب موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات کی کڑی یاد دہانی ہے۔ اس سے تباہی کے خدشے کو محدود رکھنے اور شدید موسمی واقعات سے نمٹںے کی تیاری، زمین کے استعمال کی بہتر منصوبہ بندی اور پائیدار ترقی کے ایسے طریقے اختیار کرنے کی ضرورت واضح ہوتی ہے جن میں ماحول اور لوگوں کی بہتری کو مقدم رکھا جائے۔