انسانی کہانیاں عالمی تناظر

اقوام متحدہ کے سربراہ نے پاکستان میں انسانی برداشت اور بہادری کو سراہا

سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے پاکستان کے سیلاب سے متاثرہ صوبوں سندھ اور بلوچستان کا دورہ کیا اور وہاں متاثرین سے بات چیت بھی کی۔
UN Photo/Eskinder Debebe
سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے پاکستان کے سیلاب سے متاثرہ صوبوں سندھ اور بلوچستان کا دورہ کیا اور وہاں متاثرین سے بات چیت بھی کی۔

اقوام متحدہ کے سربراہ نے پاکستان میں انسانی برداشت اور بہادری کو سراہا

انسانی امداد

سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے اس بات کا اعادہ کیا کہ سیلاب سے برباد ہونے والے پاکستان کو بہت بڑے پیمانے پر امداد کی ضرورت ہے اور انہوں ںے اس کے لیے ہنگامی بنیادوں پر مالی مدد کی فراہمی کے لیے کہا۔ گوتیرش نے یہ بات پاکستان کے دو روزہ دورے کے اختتام پر کہی جس کا مقصد موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں آنے والی اس تباہی کے بارے میں آگاہی بیدار کرنا تھا جبکہ انہوں نے سیلاب سے بری طرح متاثر ہونے والے بعض علاقوں کا فضائی دورہ بھی کیا۔

اقوام متحدہ کے سربراہ نے بلوچستان جاتے وقت سیلاب سے بری طرح متاثر ہونے والے بعض علاقوں کے فضائی دورے سے پہلے سندھ میں مقامی لوگوں سے ملاقات کی جن میں سے بعض ایسے تھے جو سیلاب سے براہ راست متاثر ہوئے ہیں۔ ان میں بہت سے لوگوں نے وسط جون سے ملک کو لپیٹ میں لینے والی مون سون کی قریباً مسلسل بارشوں، سیلابی ریلوں اور بارش کے نتیجے میں ہونے والی لینڈ سلائیڈنگ میں اپنے عزیزوں، گھروں اور اپنی ہر ملکیت کو کھو دیا ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق سیلاب میں 1,300 سے زیادہ جانیں جا چکی ہیں، لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں، اس وسیع ملک کا ایک تہائی حصہ زیرآب آ گیا ہے اور مویشیوں اور فصلوں کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ مزید برآں، اندازاً پینتیس لاکھ بچوں کی تعلیم اور سیکھنے کا عمل منقطع ہو گیا ہے جن میں کم از کم 61 مہاجر سکولوں کے بچے بھی شامل ہیں۔

Tweet URL

'موسمیاتی تباہی'

انتونیو گوتیرش نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ مکمل کرنے کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ ''میں دنیا میں آنے والی بہت سی آفات کا مشاہدہ کر چکا ہوں لیکن میں نے موسمیاتی عوامل کے نتیجے میں اس قدر بڑے پیمانے پر تباہی پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ میں ںے آج جو کچھ دیکھا ہے اسے بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ میں نے اپنے ملک پرتگال کے رقبے سے تین گنا بڑے علاقے کو زیرآب دیکھا ہے۔

اگرچہ ''لامحدود انسانی مصائب'' کا مشاہدہ کرنا ان کے لیے بہت تکلیف دہ تھا لیکن ان کا کہنا تھا کہ اس دوران انہوں نے ہنگامی حالات میں مدد مہیا کرنے والے کارکنوں سے لے کر اپنے ہمسایوں کی مدد کرنے والے عام لوگوں کی جانب سے ''انسانی استقامت اور بہادری کے عظیم مظاہرے بھی دیکھے ہیں۔''

اس سے پہلے ہفتے کی صبح کو انتونیو گوتیرش ہوائی جہاز کے ذریعے اسلام آباد سے سندھ کے شہر سکھر گئے۔ اس دورے میں وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری بھی ان کے ساتھ تھے۔ ان کے دورے کا اختتام ہفتے کی شام کراچی میں ہوا جہاں انہوں نے ایئرپورٹ پر وزیر خارجہ کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کی۔

ٹارمک پر ان کے ساتھ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین 'یو این ایچ سی آر' کی جانب سے فراہم کیا گیا امدادی سامان بھی موجود تھا جو متاثرہ لوگوں کی مدد کے لیے بھیجا جائے گا۔

سیکرٹری جنرل نے پاکستان کے سول، فوجی، قومی اور علاقائی حکام کی سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے بہت بڑے پیمانے پر کوششوں کو سراہا۔

انہوں نے کہا کہ ''میں سول سوسائٹی، امدادی اداروں اور اقوام متحدہ میں اپنے ساتھیوں کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جو مدد کے لیے فوری آگے آئے۔ میں ان تمام عطیہ دہندگان کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے اس ہولناک وقت میں پاکستان کو مدد کی فراہمی شروع کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ضروریات بہت زیادہ ہیں اور اسی لیے ''میں زور دیتا ہوں کہ پاکستان کی بہت بڑے پیمانے پر اور فوری مالی مدد کی جائے۔ یہ محض یکجہتی یا فیاضی کا معاملہ نہیں بلکہ اس کا تعلق انصاف سے ہے۔''

وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے سیکرٹری جنرل کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کے سربراہ نے ''ہمارے مشکل وقت میں پاکستان کا دورہ کیا اور مون سون کی تباہ کن بارشوں سے ہونے والی تباہی کا براہ راست مشاہدہ کیا جن کا ہمیں کئی مہینوں سے سامنا ہے۔''

انہوں ںے زور دے کر کہا کہ یہ بحران پاکستان کا پیدا کردہ نہیں اور ''اس کے خلاف اقدامات میں پوری دنیا کو ہمارا ساتھ دینا چاہیے۔''

بے سروسامان

جب اقوام متحدہ اور پاکستان کے حکام کو لے جانے والا جہاز ملک کے جنوبی علاقوں سے گزرا تو زیرآب زمین واضح دکھائی دیتی تھی۔ تاحد نگاہ سیلاب سے ہونے والا نقصان اور اونچا پانی پھیلا ہوا تھا۔

سیکرٹری جنرل نے نقصان کا براہ راست مشاہدہ کرنے کے علاوہ مقامی حکام اور رہائشیوں سے بھی ملاقات کی جو اب بے گھر ہو چکے ہیں۔ اس کے ساتھ وہ متاثرین کی مدد کے لیے سب سے پہلے پہنچنے والوں اور ''بے لوث'' مقامی لوگوں سے بھی ملے جو اس وقت متاثرین کی مدد کو آئے تھے جب سیلابی پانی اونچا ہونا شروع ہوا تھا۔

سکھر ایئرپورٹ پر وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے بتایا کہ صوبہ سندھ میں کس درجے کی تباہی ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ''دریائے سندھ کے دونوں کناروں پر واقعتاً تمام دیہی علاقے سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ ہماری اطلاع کے مطابق تقریباً 600 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، 10,000 سے کچھ کم زخمی ہیں اور اندازے کے مطابق سیلاب سے مجموعی طور پر ایک کروڑ بیس لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں۔''

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے بے گھر ہو جانے والے لوگوں کی مدد کی غرض سے انہیں پناہ کے لیے خیموں اور مچھر دانیوں سمیت امدادی سامان کی فراہمی پر اپنی توجہ مرکوز رکھی ہے۔

سکھر کا علاقہ 2010 اور 2011 کے سیلاب سے بھی شدید متاثر ہوا تھا اور 2022 میں بھی یہ ایسے علاقوں میں شامل ہے جنہیں سیلاب میں سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔

انتونیو گوتیرش نے کہا کہ انسانی جانوں کا نقصان، تباہی اور جائیداد اور روزگار کا نقصان واضح ہے لیکن ان کا پاکستان کے حکام سے کہنا تھا کہ ''آپ کی بات سن کر مجھے اندازہ ہوا ہے کہ اس نقصان کے باوجود لوگوں کی امید قائم ہے۔''

اقوام متحدہ کے سربراہ نے واضح کیا کہ اس امید کو عملی صورت دینے کے لیے عالمی برادری کو دیگر اقدامات کے علاوہ ''فطرت کے ساتھ پاگل پن پر مبنی سلوک کو روکنا ہو گا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم فضاء میں کاربن اور مُضرصحت گیسوں کے اخراج میں کمی لائیں۔ یہ قاہرہ میں سی او پی 27 کے موقع پر ہونے والی بات چیت کا لازمی حصہ ہو گا۔''

سندھ میں سکھر ایئرپورٹ سے بلوچستان میں اوستہ محمد پر نئے پڑاؤ تک تباہی کے مناظر یکساں طور سے واضح تھے۔ دونوں علاقوں کے مابین ہیلی کاپٹر پر تقریباً 25 منٹ کا سفر روح فرسا تھا۔ ان علاقوں میں کبھی لاکھوں لوگ آباد تھے جو اب بے گھر ہو چکے ہیں اور وہاں زندگی کا تقریباً کوئی نشان دکھائی نہیں دیتا تھا۔

اوستہ محمد میں سیکرٹری جنرل، پاکستان کے وزیراعظم اور وزیر خارجہ نے بے گھر لوگوں کی دلخراش داستانیں سنیں۔ ان میں سے ایک شخص نے سیلاب میں اپنا سب کچھ کھو دیا تھا۔ وہ قصبے کے مضافات میں رہتا تھا اور صرف ایک بکری اس کی ملکیت تھی۔

اعلیٰ حکام ایک خاتون سے بھی ملے جس نے اپنی بیماری کے بارے میں بتایا جبکہ ایک خیمے میں چارپائی پر لیٹی پروین نامی ایک خاتون نے بیٹے کو جنم دیا تھا۔ گوتیرش نے جب اس کے بچے کو اٹھایا اور اس کی صحت کے بارے میں دریافت کیا تو وہ خاتون مسکرا دی۔

پاکستان کے اس حصے میں درجہ حرارت قریباً 38 ڈگری ہے۔ یہ گرمی ناقابل برداشت ہے لیکن وہاں رہنے والوں کے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ خیموں میں پنکھے نصب ہیں اور یونیسف کی جانب سے مہیا کردہ ایک خیمے میں چھوٹے بچے تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ اقوام متحدہ اور حکومت پاکستان کے اعلیٰ سطحی حکام نے ان متاثرین کی داستانوں اور امیدوں کو توجہ سے سنا۔

سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش اور پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف سیلاب سے متاثرہ صوبہ بلوچستان کے علاقے اوستہ محمد میں متاثرین کے ایک کیمپ میں۔
UN Photo/Eskinder Debebe
سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش اور پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف سیلاب سے متاثرہ صوبہ بلوچستان کے علاقے اوستہ محمد میں متاثرین کے ایک کیمپ میں۔

امدادی اقدامات کی سہولیات

امدادی اقدامات کی سہولیات (ایچ آر ایف) ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کے زیر اہتمام پاکستان بھر میں اہم مقامات پر امدادی سامان کے گوداموں کا ایک نیٹ ورک ہے جو حکومت پاکستان کی درخواست پر قائم کیا گیا ہے۔ ملک میں ایسے آٹھ ایچ آر ایف ہیں جن کا مقصد امداد اور امدادی اقدامات کو تمام صوبوں میں پھیلانا ہے۔ سکھر میں ایچ آر ایف 2016 میں مکمل ہوا تھا۔ 10 ایکڑ پر قائم اس مرکز میں 3.200 میٹرک ٹن سامان رکھنے کی گنجائش ہے۔

اقوام متحدہ کے علاقائی رابطہ کار جولین ہرنیس نے یو این نیوز کو بتایا کہ اس تباہی سے نمٹنے میں ایچ آر ایف کا نہایت اہم کردار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ''ان گوداموں اور ان میں جمع شدہ اشیاء کی غیر موجودگی میں لوگوں کو امداد کے لیے مہینوں انتظار کرنا پڑتا۔''

انہوں ںے مزید کہا کہ یہ بہت بڑے درجے کی تباہی ہے لیکن ان کی رائے میں مستقبل کے لیے ''ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ آفت کے موقع پر سب سے پہلے مدد کے لیے پہنچنے والوں، حکومتوں، انجمنوں اور سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر بہتر طور سے کام کیسے کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے ہمیں مستقبل کے لیے مختلف النوع امدادی نمونوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔''

پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ ایک علاقے کا فضائی منظر
UN News/Shirin Yaseen
پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ ایک علاقے کا فضائی منظر

پاکستان دوسروں کے غلط اقدامات کی قیمت چکا رہا ہے

انتونیو گوتیرش نے کراچی میں بات کرتے ہوئے کہا کہ انسانی سرگرمی کے نتیجے میں آنے والی موسمیاتی تبدیلی پاکستان میں ہی نہیں بلکہ چاڈ، اور شاخ افریقہ جیسے علاقوں میں بھی طوفانوں اور قدرتی آفات کو بڑھاوا دے رہی ہے جہاں خوفناک خشک سالی، قحط اور اس سے بھی بڑی آفتیں جنم لے رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ''یہ مسئلہ پیدا کرنے میں ان تمام ممالک کا کوئی کردار نہیں لیکن وہ اس کی قیمت ضرور چکا رہے ہیں۔''

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان شدید موسمی حالات کے اسباب پر نظر ڈالی جائے تو ہر جگہ انسانی سرگرمیوں کے آثار دکھائی دیتے ہیں اور خاص طور پر معدنی ایندھن کے استعمال سے ہماری زمین گرم ہو رہی ہے۔

انہوں ںے یاد دلایا کہ آج دنیا بھر میں کاربن کے 80 فیصد اخراج کی ذمہ داری جی20 ممالک پر عائد ہوتی ہے اور پوری انسانی تاریخ میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے بڑی حد تک ذمہ دار ترقی یافتہ ممالک ہی ہیں۔

سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ''میں یہاں پاکستان میں ایک واضح نقطے پر زور دینا چاہوں گا کہ امیر ممالک کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کی مدد کریں تاکہ وہ حالیہ سیلاب جیسی تباہی کے بعد خود کو بحال کر سکیں اور موسمیاتی تبدیلی کے ان اثرات سے نمٹنے کے لیے خود کو تیار کر سکیں جو بدقسمتی سے مستقبل میں دوبارہ سامنے آئیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ایسے حالات کی قیمت چکا رہا ہے جو دوسروں نے پیدا کیے ہیں۔

سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ ''آج برا وقت پاکستان پر آیا ہے۔ کل یہ آپ کا ملک بھی ہو سکتا ہے یا جہاں کہیں بھی آپ رہتے ہوں اور تمام ممالک خاص طور پر جی 20 کو ہر سال گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے سے متعلق اپنے قومی اہداف بڑھانا ہوں گے یہاں تک کہ دنیا کرہ ارض کے درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیئس کی حد میں رکھنے کا ہدف یقینی طور پر حاصل کر لے۔ خدشہ ہے کہ ہمارے لیے ایسا کرنا ہمیشہ کے لیے ناممکن ہو سکتا ہے۔''

جنوبی ایشیا سمیت موسمیاتی اعتبار سے انتہائی غیرمحفوظ حالات میں رہنے والے لوگوں کے لیے موسمیاتی اثرات سے مرنے کا خطرہ دوسرں سے 15 گنا زیادہ ہوتا ہے۔ اس وقت دنیا کے قریباً نصف لوگ اس درجے میں آتے ہیں جن کی غالب اکثریت ترقی پذیر ممالک میں بستی ہے۔

جیسا کہ پاکستان سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے اور قحط شاخِ افریقہ کو گرفت میں لینے کو ہے تو امیر ممالک کو انہیں ایسے حالات پر قابو پانے میں مدد دینے کے لیے آگے آنا ہو گا۔