انسانی کہانیاں عالمی تناظر

پاکستان میں موسمیاتی تباہی ناقابل تصور ہے: اقوام متحدہ کے سربراہ کا جنرل اسمبلی سے خطاب

پاکستان کے صوبہ سندھ کے علاقے مٹیاری میں سیلاب سے متاثرہ ایک قصبہ۔
© UNICEF/Asad Zaidi
پاکستان کے صوبہ سندھ کے علاقے مٹیاری میں سیلاب سے متاثرہ ایک قصبہ۔

پاکستان میں موسمیاتی تباہی ناقابل تصور ہے: اقوام متحدہ کے سربراہ کا جنرل اسمبلی سے خطاب

انسانی امداد

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور اس کی ذمہ داری کے حوالے سے پاکستان کے لوگ ’سخت ناانصافی کا شکار ہیں‘، سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے جمعہ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو بتایا، اور بآور کرایا کہ دنیا بھر میں گرین ہاؤس گیسوں کے مجموعی اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن یہ ’انسان کے ہاتھوں رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کی بہت بھاری قیمت ادا کر رہا ہے‘۔

اقوام متحدہ کے سب سے بڑے فورم کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ایک ماہ انہوں نے پاکستان کا دورہ کیا اور وہاں جس درجے کی موسمیاتی تباہی دیکھی وہ ناقابل تصور ہے۔ ’وہاں میرے اپنے ملک پرتگال کے مجموعی رقبے سے تین گنا زیادہ علاقہ پانی میں ڈوبا ہوا تھا۔ سیلاب سے متاثرہ بہت سے لوگ اپنا سب کچھ، اپنے گھر، مویشی، فصلیں اور اپنا مستقبل کھو چکے ہیں۔ زندگیاں پانی کی نذر ہو گئیں۔‘

Tweet URL

صورتحال مزید بگڑے گی

اگرچہ بارشیں تھم گئی ہیں اور پانی اترنا شروع ہو گیا ہے لیکن پاکستان کے جنوب میں بہت سے علاقے تاحال زیر آب ہیں۔

سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی مزید بڑی تباہی سر پر منڈلانے لگی ہے۔

’پاکستان صحت عامہ کی تباہی کے دھانے پر کھڑا ہے‘، اقوام متحدہ کے سربراہ نے متنبہ کیا، اور بتایا کہ  متاثرہ علاقوں میں ممکنہ طور پر ہیضے کی وبا، ملیریا اور ڈینگی بخار پھیلنے کے نتیجے میں ’سیلاب میں ہونے والی ہلاکتوں سے کہیں بڑی تعداد میں اموات کا خدشہ ہے۔‘

صورتحال کی سنگینی کی تصویر کشی کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تقریباً 1,500 طی مراکز تباہ ہو گئے ہیں جس سے وباؤں کی نشاندہی اور ان کے خلاف اقدامات میں بڑی رکاوٹ پیدا ہو گئی ہے۔ 20 لاکھ سے زیادہ گھروں کو نقصان پہنچا ہے یا وہ تباہ ہو گئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 20 لاکھ سے زیادہ گھرانے اپنا سب کچھ کھو چکے ہیں۔ سردیوں کی آمد پر ان میں بہت سے لوگوں کے پاس چھت نہیں ہے۔

آفتوں کا سلسلہ

’اس کے ساتھ بڑے پیمانے پر مویشیوں کی ہلاکت اور فصلیں تباہ ہونے سے خوراک کا بحران جنم لے رہا ہے اور آئندہ فصلوں کی کاشت کو خطرہ لاحق ہے‘ سیکرٹری جنرل گوتیرش نے اپنی بات جاری رکھتے مزید بتایا کہ ’غذا کا شدید بحران شدت اختیار کر رہا ہے۔ بچوں اور دودھ پلانے والے حاملہ خواتین میں غذائی قلت بڑھ رہی ہے۔ سکول جانے سے محروم بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ خاص طور پر عورتوں اور لڑکیوں کی ذہنی اذیت اور مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔

15 ملین سے زیادہ لوگ غربت کے منہ میں جا سکتے ہیں۔  لوگوں کی بہت بڑی تعداد بہت کم وسائل میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے جو اس سیلاب کے اثرات دنوں یا مہینوں سے کہیں بڑے عرصہ تک محسوس کرتی رہے گی۔ پاکستان میں یہ تباہ کن آفات آنے والے برسوں تک جاری رہیں گی۔

وسیع پیمانے پر امداد کی ضرورت

ہم امدادی وعدوں کے لیے کانفرنس کا انعقاد کرنے کی غرض سے پاکستان کی حکومت کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ عطیہ دہندگان کو اعلیٰ ترین سطح پر جمع کیا جائے جس سے بحالی اور تعمیر نو کی کوششوں کے لیے ٹھوس تعاون حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔

میں عطیہ دہندہ ممالک، بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور متعلقہ عالمی اداروں نیز نجی شعبے اور سول سوسائٹی پر زور دیتا ہوں کہ وہ ان کوششوں میں بھرپور تعاون کریں۔

اسی دوران ہم نے 'پاکستان فلڈز رسپانس پلان' بھی شروع کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے نظرثانی شدہ امدادی منصوبے کے تحت اب ہمیں پاکستان کے لیے 816 ملین ڈالر امداد درکار ہے تاکہ آئندہ سال مئی تک انتہائی نوعیت کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ یہ ضرورت ابتدا میں کی جانے والی امدادی اپیل سے 656 ملین ڈالر زیادہ ہے۔

’لیکن یہ ہمیں خوراک، پانی، نکاسی آب، پناہ، ہنگامی تعلیم، تحفظ اور طبی امداد سمیت ہر محاذ پر درکار ضرورت کے مقابلے میں بہت کم ہے۔‘

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ میں سیلاب سے بری طرح متاثر علاقے نوشہرہ کلاں کی گلیوں کا ایک منظر۔
© UNICEF/Loulou d'Aki
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ میں سیلاب سے بری طرح متاثر علاقے نوشہرہ کلاں کی گلیوں کا ایک منظر۔

جی 20 کا ’اخلاقی فرض‘

اس تمام معاملے میں موسمیاتی بحران کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ سی او پی 27 کے انعقاد کا وقت تیزی سے قریب آ رہا ہے لیکن دنیا الٹی سمت میں جا رہی ہے۔ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں اضافہ ہو رہا ہے جس کے ساتھ موسمیاتی آفات بھی بڑھ رہی ہیں۔

اقوام متحدہ کے سربراہ نے زور دے کر کہا کہ سی او پی 27 میں ان رحجانات کا رخ موڑنا ہو گا۔ سی او پی 27 میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے مطابقت اختیار کرنے اور ان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرنے کے لیے درکار ضروری مالی وسائل کی فراہمی کے لیے واضح اقدامات کرنا ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ خاص طور پر دولت مند ممالک پر پاکستان جیسے ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں شدت اختیار کرتی قدرتی آفات سے مطابقت اختیار کرنے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے مدد دینے کی اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ’یاد رہے کہ اس طرح کی موسمیاتی تباہی کا باعث بننے والی 80 فیصد گرین ہاؤس گیسیں جی20 ممالک خارج کرتے ہیں۔‘

’فوری عمل کی ضرورت ہے‘

انتونیو گوتیرش نے جنرل اسمبلی کو بتایا کہ ایک تہائی پاکستان زیر آب آ گیا ہے اور اسی طرح چھوٹے جزائر پر مشتمل بہت سے ممالک کو سمندر میں ڈوب جانے کا حقیقی خطرہ درپیش ہے۔ ’ہر جگہ لوگ موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں آنے والی تباہی کی زد میں ہیں۔ ہمیں اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے اسی وقت عملی قدم اٹھانا ہے۔‘

انہوں نے رکن ممالک کو خبردار کیا کہ آج یہ تباہی پاکستان میں آئی ہے ’کل اس کا سامنا آپ کے ملک اور آپ کے لوگوں کو بھی ہو سکتا ہے۔ اس وقت موسمیاتی تباہی سبھی کے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔ ہمیں آگے بڑھنا اور پاکستان کے لوگوں کے لیے مدد کی پکار کا جواب دینا ہو گا۔ عالمگیر بحران عالمگیر یکجہتی اور اقدامات کا تقاضا کرتا ہے۔

یکجیتی کا امتحان

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر سابا کوروشی نے سیلاب سے متاثرہ پاکستان کی بروقت مدد کی اہمیت واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''ہم اس معاملے میں تاخیر کی جو قیمت چکا رہے ہیں وہ روز بروز بڑھ رہی ہے۔''

ایک بیان میں انہوں ںے کہا کہ یہ دنیا کی یکجہتی کا امتحان ہے کہ اقوام متحدہ کے رکن ممالک پاکستان کو درپیش مصیبت پر کیسا ردعمل دیتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ''یہ بہت بڑے پیمانے پر رونما ہونے والا المیہ ہے جو ''مستقل ہنگامی حالات'' کو روکنے کے لیے ''فوری مداخلت'' کا متقاضی ہے۔

اجتماعی تعمیر نو

جنرل اسمبلی کے صدر نے خشک سالی اور بارشوں کی واپسی کے تناظر میں آئندہ وباؤں اور بیماریوں سے نمٹنے کے لیے بہتر تیاری کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ اب یہ ضرورت بڑھ گئی ہے کہ عالمی امدادی سرگرمیوں کو ایسے انداز میں انجام دیا جائے جس سے حالات میں تبدیلی آئے۔ '' موافقت اور مضبوطی دراصل استحکام کی بنیاد ہیں۔''

کوروشی نے اقوام متحدہ میں دنیا بھر کے سفیروں پر زور دیا کہ ''بحران سے نمٹنے کی صلاحیتوں کو بہتر بنایا جائے اور باہم مل کر تعمیرنو کے لیے سائنس اور یکجہتی سے کام لیا جائے۔''

مدد کے لیے اپیل

دریں اثنا اقوام متحدہ میں مہاجرین سے متعلق ادارہ 'یواین ایچ سی آر' پاکستان میں تباہ کن سیلات سے متاثرہ 650,000 سے زیادہ مہاجرین اور ان کی میزبانی کرنے والوں کی فوری مدد کا خواہاں ہے۔

ادارے کے ترجمان میتھیو سالٹ مارش نے جمعے کو جنیوا میں صحافیوں کو بتایا کہ اس قدر بڑے پیمانے پر تباہی کا ادراک کرنا آسان نہیں۔ پاکستان کو موسمیاتی تباہی پر قابو پانے کے ''بہت بڑے مسئلے''  کا سامنا ہے، اس ملک اور اس کے لوگوں کو مزید مدد درکار ہے جس نے چار دہائیوں تک افغان مہاجرین کی فیاضانہ انداز میں میزبانی کی ہے۔

انہوں ںے بے مثال بارشوں اور سیلاب سے متعلق تازہ ترین تخمینوں کے بارے میں بتایا جن میں کم از کم 1,700 افراد ہلاک اور 12,800 زخمی ہوئے جن میں 4,000 بچے بھی شامل ہیں۔ 79 لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں جن میں قریباً 600,000 امدادی کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔

سندھ کے شہر عمر کوٹ میں سڑکوں پر سیلابی پانی بہہ رہا ہے۔
© UNICEF/Asad Zaidi
سندھ کے شہر عمر کوٹ میں سڑکوں پر سیلابی پانی بہہ رہا ہے۔

'نمایاں خطرے کی زد میں'

سالٹ مارش کا کہنا تھا کہ ''پاکستان موسمیاتی ہنگامی حالات سے نمایاں طور پر متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔''

'یو این ایچ سی آر' کو فوری ضروریات پوری کرنے اور بحالی کے ابتدائی عمل میں مدد دینے کے لیے مزید مالی وسائل درکار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ''سیلاب سے بری طرح متاثر ہونے والے علاقوں میں پانی اترنے میں کئی مہینے لگ سکتے ہیں جبکہ کھڑے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں لاحق ہونے کے خدشات اور لاکھوں متاثرہ افراد کے تحفظ کے بارے میں خطرات بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے یاد دلایا کہ ''پاکستان میں اس قدرتی آفت کے خلاف ردعمل میں ماحولیاتی استحکام کو ہمیشہ مرکزی اہمیت حاصل رہے گی ۔