انسانی کہانیاں عالمی تناظر

ایرانی حجاب قوانین صنفی امتیاز کی علامت: انسانی حقوق ماہرین

''پاکبازی اور حجاب'' کے قوانین پر عمل نہ کرنے والی طالبات کو تعلیمی خدمات مہیا نہیں کی جائیں گی۔
Unsplash/Amir Hosseini
''پاکبازی اور حجاب'' کے قوانین پر عمل نہ کرنے والی طالبات کو تعلیمی خدمات مہیا نہیں کی جائیں گی۔

ایرانی حجاب قوانین صنفی امتیاز کی علامت: انسانی حقوق ماہرین

خواتین

انسانی حقوق پر اقوام متحدہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران میں حجاب سے متعلق قوانین کے جابرانہ نفاذ کا نتیجہ ملک میں حجاب اوڑھنے کے لازمی قوانین کی پابندی نہ کرنے والی خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تادیبی و تعزیری اقدامات کی صورت میں نکلے گا۔

ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ایسے جابرانہ اور ڈریکولائی اقدامات صنفی بنیاد پر ظلم کا اظہار ہیں اور اسلامی جمہوریہ ایران میں خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کی ناقابل قبول حد تک خلاف ورزی کا سبب بنیں گے۔

Tweet URL

ماہرین کا کہنا ہے کہ ''یہ بات نہایت تشویشناک ہے کہ اخلاقی پولیس کی حراست میں 22 سالہ مہاسا امینی کی ہلاکت کے بعد کئی ماہ تک ہونے والے ملک گیر مظاہروں اور حجاب سے متعلق جابرانہ قوانین کے خلاف احتجاج کے بعد ایران کی خواتین کو ریاستی حکام کی جانب سے بڑھتے ہوئے سخت اور جابرانہ اقدامات کا سامنا ہے۔''

تعزیرات کا سامنا

ماہرین کا کہنا ہے کہ لازمی حجاب اوڑھنے کے قوانین اور دیگر قانون اور ضوابط ایران کے ضابطہ تعزیرات کا حصہ ہیں جو سکیورٹی اور انتظامی حکام کو خواتین کی من چاہی گرفتاریوں اور انہیں قید میں رکھنے سمیت سر نہ ڈھانپنے پر ہسپتالوں، سکولوں، سرکاری دفاتر اور ہوائی اڈوں سمیت عوامی مقامات تک ان کی رسائی روکنے کا اختیار دیتا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ ''یہ اضافی جابرانہ اقدامات لازمی حجاب اوڑھنے کے منفی اثرات کو مزید بڑھا دیں گے۔ حجاب اوڑھنے سے انکار کو جرم قرار دینا خواتین اور لڑکیوں کے آزادی اظہار کے حق کی خلاف ورزی ہے اور اس سے سیاسی، شہری، ثقافتی اور معاشی حقوق کی بہت سی ممکنہ خلاف ورزیوں کے دروازے کھلتے ہیں۔

ماہرین نے یاد دلایا کہ ایران کے موجودہ ضابطہ تعزیرات کے تحت عوامی مقامات پر شائستگی کے خلاف سمجھا جانے والا کوئی بھی عمل کرنے پر دس یوم سے دو ماہ تک قید یا 74 کوڑوں کی سزا ہو سکتی ہے۔ حجاب کے بغیر عوامی مقامات پر جانے والی خواتین کو 10 یوم سے دو ماہ تک قید یا جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے۔

نو سالہ بچیاں بھی قابل تعزیر

یہ قانون نو سال تک عمر کی بچیوں پر بھی لاگو ہوتا ہے جو کہ ایران میں لڑکیوں کو مجرم قرار دینے کی کم از کم عمر ہے۔ عملی طور پر حکام نے سات سال کی عمر میں ابتدائی سکول کی تعلیم کے آغاز سے ہی لڑکیوں کا حجاب اوڑھنا لازم قرار دے رکھا ہے۔

ماہرین نے کہا کہ ''یہ امتیازی اور توہین آمیز اقدامات عدالتی حکام کو حجاب کے قوانین کی پابندی نہ کرنے والی خواتین اور لڑکیوں کو گرفتار کرنے کا اختیار دیتے ہیں جس کا مقصد ان سے اس تحریری دستاویز پر دستخط کرانا ہوتا ہے کہ وہ آئندہ یہ ''جرم'' نہیں کریں گی۔

انہوں نے بتایا کہ ایسی دستاویز پر دستخط سے انکار یا دستخط کرنے کے بعد لازمی حجاب اوڑھنے کے قوانین کی پابندی کرنے سے عمومی انکار کرنے والی خواتین کو چھ ماہ تک زیرنگرانی رکھنے، انہیں ایک سال تک بیرون ملک سفر کی اجازت نہ دینے اور سرکاری یا عوامی عہدوں کے حصول سے محروم رکھنے سمیت بہت سی ''سزائیں'' دی جا سکتی ہیں۔

’اخلاقی پولیس‘

ان قوانین کو منتظمین اور کاروباری مالکان تک پھیلا دیا گیا ہے جو اپنی خواتین ملازمین کی جانب سے حجاب اوڑھنے کی پابندی پر عمل نہ کرنے کی صورت میں ان قوانین کے نفاذ کے لیے موثر طور سے ''پولیس'' کا کردار ادا کریں گے۔

ایران کی وزارت تعلیم نے بھی اعلان کیا ہے کہ ''پاکبازی اور حجاب'' کے قوانین پر عمل نہ کرنے والی طالبات کو تعلیمی خدمات مہیا نہیں کی جائیں گی اور اس طرح حصول تعلیم کے لیے ان کے بنیادی حق کو کمزور کر دیا گیا ہے۔

ماہرین نے کہا ہے کہ ''یہ تحدیدی اقدامات اور جابرانہ پالیسیاں جن کا انحصار 'قوانین یا قانونی طریقہ کار' پر نہیں بلکہ انہیں بہت سے ریاستی حکام اور نجی کرداروں کے ذریعے نافذ کرایا جاتا ہے، دراصل عوام اور اپنے شہریوں خصوصاً خواتین اور لڑکیوں کی نجی زندگی پر ریاستی کنٹرول کے لیے بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ ڈریکولائی اقدامات ایسی خواتین کو سماجی و معاشی طور پر اپاہج کر دیتے ہیں جو ان قوانین پر عمل کرنے سے انکار کرتی ہیں۔''

اقوام متحدہ کے ماہرین نے ایران کے حکام پر زور دیا ہے کہ وہ دستور میں تبدیلی لائیں، صنفی اعتبار سے امتیازی قوانین کو واپس لیں اور ایسے تمام ضوابط کو کالعدم قرار دیں جن کے تحت ریاستی حکام عوامی یا نجی زندگی میں خواتین کے لباس یا طرزعمل کی نگرانی اور اسے کنٹرول کرتے ہیں۔

خصوصی اطلاع کار

خصوصی اطلاع کار اور انسانی حقوق کے دیگر غیرجانبدار ماہرین جینیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی جانب سے متعین کیے جاتے ہیں۔ وہ کسی ملک میں انسانی حقوق سے متعلق مخصوص حالات یا موضوعی مسائل کی نگرانی کرتے اور اپنی رپورٹ دیتے ہیں۔

یہ اطلاع کار اور ماہرین اقوام متحدہ کے عملے کا حصہ نہیں ہوتے اور بلامعاوضہ کام کرتے ہیں۔