انسانی کہانیاں عالمی تناظر

ایران میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کے لیے مشن کا قیام

ایران کی نام نہاد اخلاقی پولیس کی تحویل میں بائیس سالہ مھاسا امینی کی ہلاکت کے خلاف سوئیڈن کے شہر سٹاک ہوم میں ایک احتجاجی مظاہرہ
Unsplash/Artin Bakhan
ایران کی نام نہاد اخلاقی پولیس کی تحویل میں بائیس سالہ مھاسا امینی کی ہلاکت کے خلاف سوئیڈن کے شہر سٹاک ہوم میں ایک احتجاجی مظاہرہ

ایران میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کے لیے مشن کا قیام

انسانی حقوق

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر تُرک کے ایران میں مظاہرین کے خلاف جاری ہلاکت خیز تشدد کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کے مطالبے کے بعد ادارے کی انسانی حقوق کونسل نے 16 ستمبر 2022 سے شروع ہونے والے مظاہروں کے بارے میں حقائق معلوم کرنے کے لیے ایک مشن تشکیل دیا ہے۔

اِس سال ستمبر میں 22 سالہ جینا مہاسا امینی کی پولیس حراست میں موت سے شروع ہونے والے بحران کے ردعمل میں بلائے جانے والے کونسل کے ایک خصوصی اجلاس میں تُرک نے ایران میں ''حکمرانوں کی محاصراتی ذہنیت'' کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

Tweet URL

انہوں نے کہا کہ ''طاقت کا غیرضروری اور غیرمتناسب استعمال'' بند ہونا چاہیے۔

ہولناک مناظر

اجلاس میں موجود شرکا کی بڑی تعداد سے خطاب کرتے ہوئے تُرک کا کہنا تھا کہ ''ایران میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے دیکھنا میرے لیے بہت دردناک ہے۔ وہاں بچوں کو ہلاک کیا جا رہا ہے، خواتین کو سڑکوں پر مارا پیٹا جا رہا ہے اور لوگوں کو موت کی سزا دی جا رہی ہے۔''

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر نے واضح کیا کہ کیسے سکیورٹی فورسز ''خصوصاً پاسداران انقلاب اور بسیج فورسز نے احتجاجی تحریک کے شرکا پر براہ راست فائرنگ کی ہے، ان پر پرندوں کو نشانہ بنانے والی گولیاں اور دیگر دھاتی چَھرے چلائے ہیں اور انہیں آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا نشانہ بنایا ہے جبکہ اطلاعات کے مطابق یہ تحریک اب ایران کے تمام صوبوں کے 150 شہروں اور 140 یونیورسٹیوں میں پھیل چکی ہے۔

ہائی کمشنر نے انسانی حقوق کی تمام مبینہ خلاف ورزیوں کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کرنے سے پہلے بتایا کہ ان کے دفتر کو ایران سے ''داخلی تحقیقات سمیت'' ان واقعات کی تفتیش کے بارے میں متعدد اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ تاہم یہ کوششیں ''منصفانہ کارروائی، غیرجانبداری اور شفافیت کے عالمی معیارات پر پورا نہیں اترتیں۔'' 

ایران کی تردید

ہائی کمشنر کی باتوں کا جواب دیتے ہوئے کونسل میں ایران کی نمائندہ اور ملک میں خواتین اور عائلی امور کے نائب صدر  کی نائب خدیجہ کریمی کا کہنا تھا کہ امینی کی موت کے بعد حکومت کی جانب سے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ''ضروری اقدامات'' کیے گئے ہیں۔ ان میں ایک غیرجانبدرانہ پارلیمانی تحقیقاتی کمیشن اور فارنزک میڈیکل ٹیم کی تشکیل بھی شامل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ''تحقیقاتی کے نتائج کا رسمی اعلان ہونے سے پہلے ہی بہت سے مغربی حکام کی جانب سے متعصبانہ اور جلدبازی پر مبنی ردعمل اور ایران کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے پُرامن اجتماعات نے فسادات اور تشدد کی شکل اختیار کر لی ہے۔''

2005 میں قائم ہونے والی کونسل کے اس 35ویں خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایران میں انسانی حقوق کی صورتحال کے بارے میں خصوصی اطلاع کار جاوید رحمان کا کہنا تھا کہ مظاہرین کو خاموش کرانے کی کوششیں گزشتہ ہفتے شدت اختیار کر گئی ہیں جن میں بچوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

بچوں کی ہلاکتیں

انہوں ںے کہا کہ مظاہرین کے خلاف پُرتشدد کارروائیوں میں پانچ بچوں سمیت کم از کم 60 سے 70 افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور ایسی بیشتر ہلاکتیں کرد علاقوں میں ہوئیں۔ انہوں ںے کرد شہر پیران شہر، جوان رود اور مہا آباد کی صورتحال کو ''تشویش ناک'' قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ''ایران کی حکومت نے غیرمصدقہ اطلاعات پیش کیں اور ایسے دعوے کیے ہیں کہ جینا مہاسا کی موت کسی طرح کے تشدد یا مار پیٹ کے نتیجے میں نہیں ہوئی۔ دیگر اطلاعات میں حکومت نے سکیورٹی فورسز کی جانب سے بچوں کی ہلاکت کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ان بچوں نے خودکشی کی، بلندی سے گر گئے، انہیں زہر دیا گیا یا وہ نامعلوم ''دشمن ایجنٹوں'' کے ہاتھوں مارے گئے۔

یہ اُن 400 لوگوں میں سے تین ہیں جنہیں اپنی زندگی کا خود تعین کرنے کے حق کے لیے آواز بلند کرنے پر ہلاک کر دیا گیا۔

حجاب کے قوانین

اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے دفتر کی جانب سے جاری کردہ اطلاعات کے مطابق 13 ستمبر کو ایران کی نام نہاد اخلاقی پولیس کی جانب سے مناسب طریقے سے حجاب نہ اوڑھنے پر امینی کی گرفتاری اور ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں میں 300 سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں جن میں کم از کم 40 بچے بھی شامل ہیں۔ 

کونسل کے خصوصی اجلاس کا سب سے پہلے مطالبہ کرنے والی جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیئربوک نے کہا ہے کہ کم از کم 15,000 لوگوں کو گرفتار بھی کیا جا چکا ہے اور ایران کی حکومت اب مظاہرین کو سزائے موت کی دھمکی دے رہی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ یہ خواتین، مرد اور بچے اپنے انہی حقوق سے کام لینا چاہتے ہیں جن سے کام لینے کے ہم سب خواہش مند ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ سبھی کو کسی طرح کے امتیازی سلوک کا سامنا کیے بغیر وقار سے جینےکا حق ملنا چاہیے۔

جنیوا میں انسانی حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ کی سفیر مشیل ٹیلر نے یہ پیغام دہراتے ہوئے کونسل کو بتایا کہ ایران کے لوگ ''نہایت سادہ سی چیز کا مطالبہ کر رہے ہیں اور یہ ایسی چیز ہے جس کی ہم میں سے بیشتر لوگ زیادہ پروا بھی نہیں کرتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ انہیں اپنی بات کرنے کا موقع ملے اور ان کی بات سنی جائے۔ ہم ان کی جرات اور خاص طور پر خواتین، لڑکیوں اور نوجوانوں کی ہمت کو سراہتے ہیں جو بہادرانہ طور سے اپنے انسانی حقوق کے احترام اور ان کی پامالیوں پر احتساب کا مطالبہ کر رہے ہیں۔''