انسانی کہانیاں عالمی تناظر

پاکستان: آبپاشی کا نظام جس نے مقامی لوگوں کی زندگی بدل دی

آبپاشی کے اس نظام سے ناصرف نئے کھیتوں کو پانی مہیا کیا جا رہا ہے بلکہ پہلے سے موجود کھیت بھی اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔
IFAD
آبپاشی کے اس نظام سے ناصرف نئے کھیتوں کو پانی مہیا کیا جا رہا ہے بلکہ پہلے سے موجود کھیت بھی اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔

پاکستان: آبپاشی کا نظام جس نے مقامی لوگوں کی زندگی بدل دی

پائیدار ترقی کے اہداف

شمالی پاکستان میں پانی کے ایک نئے نظام نے وہاں رہنے والے لوگوں کی زندگیاں بدل کر رکھ دی ہیں۔ درجہ حرارت میں ریکارڈ اضافے کے باوجود علاقے میں اس نئے منصوبے کی بدولت گزشتہ برس چھوٹے کسانوں کی پیداوار میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔

اقوام متحدہ کے بین الاقوامی فنڈ برائے زرعی ترقی (آئی ایف اے ڈی) اور گلگت بلتستان کی حکومت کے مابین کئی ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کے نتیجے میں آبپاشی اور علاقے میں پانی کی فراہمی کے 75 منصوبوں کو عملی شکل دی گئی ہے جس کی بدولت اس علاقے میں 44 ہزار ایکڑ سے زیادہ رقبے پر پانی کا ایک نیا ذریعہ میسر آیا ہے اور کسانوں کے لیے ایسی فصلیں اگانا بھی ممکن ہو گیا ہے جنہیں قبل ازیں اس علاقے کے لیے موزوں نہیں سمجھا جاتا تھا۔

آبپاشی پر سرمایہ کاری کا مطالبہ

اس تجربے کی روشنی میں آئی ایف اے ڈی نے اقوام متحدہ کے زیراہتمام پانی کے عالمی دن پر ترقی پذیر ممالک کے چھوٹے کسانوں کو موسمیاتی تبدیلیوں اور پانی کی بڑھتی ہوئی کمی کے تناظر میں خوردنی اجناس کی پیداوار جاری رکھنے کے لیے پانی تک رسائی اور اس کے انتظام میں مدد دینے کے لیے سرمایہ کاری کی رفتار بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے۔

آئی ایف اے ڈی کے مطابق 1.2 ارب لوگ جو کہ دنیا کی آبادی کا اندازاً چھٹا حصہ ہیں ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں زرعی مقاصد کے لیے پانی کی شدید قلت ہے اور وہاں چھوٹے کسانوں کو ضرورت کے مطابق خوراک پیدا کرنے میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ کسی حد تک اس میں سال 2000 کے بعد خشک سالی کے واقعات کی تعداد اور ان کے دورانیے میں 29 فیصد اضافے کا کردار بھی ہے۔

مطابق آبپاشی کے اس نئے نظام کے تحت 50 ہزار ایکڑ رقبے پر کاشتکاری کا ہدف مقرر کیا گیا تھا جس میں سے 44 ہزار ایکڑ سے زیادہ رقبے پر فصلیں اگائی جا چکی ہیں۔
IFAD
مطابق آبپاشی کے اس نئے نظام کے تحت 50 ہزار ایکڑ رقبے پر کاشتکاری کا ہدف مقرر کیا گیا تھا جس میں سے 44 ہزار ایکڑ سے زیادہ رقبے پر فصلیں اگائی جا چکی ہیں۔

خواب کی تعبیر

شمالی پاکستان میں گلگت بلتستان کے پہاڑی علاقے میں ایسے سرسبز کھیت کم ہی دیکھنے کو ملتے تھے لیکن میلوں تک پھیلے آبپاشی کے نظام نے گھانچے کے گاؤں خرفک اور کئی دوسرے ویران علاقوں کو سرسبز و شاداب علاقے میں تبدیل کر دیا ہے۔

اس سے ناصرف زمین کی ظاہری حالت میں تبدیلی آئی ہے بلکہ یہاں رہنے والے غریب دیہی کسانوں کی معاشی تقدیر بھی بدل گئی ہے۔

خرفک کے ایک کاشتکار محمد عباس کے مطابق  آبپاشی کے اس  ذریعے کی بدولت وہ اپنے گاؤں میں جس قدر خوشحالی دیکھ رہے ہیں وہ ناقابل بیان ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ برس پانی کے اس ذریعے پر کام مکمل ہونے کے بعد گاؤں کے ہر گھرانے نے دو کنال رقبے پر کاشتکاری کی جس سے انہیں تقریباً 600 کلو گرام گندم اور آلوؤں اور دیگر فصلوں سے اضافی آمدنی بھی حاصل ہوئی۔

محمد عباس کا کہنا تھا کہ آبپاشی کا ایسا نظام ان کے باپ دادا کا خواب تھا کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ اپنی زمینوں کو زیر کاشت لا کر وہ خوراک کے معاملے میں خود کفیل ہو جائیں۔

بنجر زمینوں پر فصلیں

خرفک اور آبپاشی کے اس نئے نظام سے مستفیذ ہونے والے دوسرے علاقوں میں رہنے والے 90 فیصد سے زیادہ لوگوں کا روزگار زراعت سے وابستہ ہے لیکن یہاں موسمی شدت اور پانی کی کمیابی جیسے مشکل حالات کی وجہ سے کسانوں کے لیے کچھ اگانا بہت مشکل ہوتا تھا۔

پاکستان میں آئی ایف اے ڈی کے پروگرام آفیسر فدا محمد نے بتایا کہ یہ علاقہ بنیادی طور پر پہاڑی ہے جہاں صرف دو فیصد زمین قابل کاشت سمجھی جاتی ہے کیونکہ زیادہ تر زمین بنجر یا نیم بنجر ہے جہاں کاشت کاری بڑی مقدار میں پانی کی دستیابی کی صورت میں ہی ممکن ہو سکتی تھی۔

آئی ایف اے ڈی کے پروگرام آفیسر بتاتے ہیں کہ پانی کی کمیابی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے آبپاشی کا ایک ایسا نظام وضع کیا گیا جس میں گلیشیئروں اور مقامی ندیوں اور دریاؤں سے حاصل کردہ پانی کو پکے کھالوں کے ذریعے زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے برؤے کار لایا گیا۔

ان کے مطابق آبپاشی کے اس نئے نظام کے تحت 50 ہزار ایکڑ رقبے پر کاشتکاری کا ہدف مقرر کیا گیا تھا جس میں سے 44 ہزار ایکڑ سے زیادہ رقبے پر فصلیں اگائی جا چکی ہیں۔

گلیشیئروں اور مقامی ندیوں اور دریاؤں سے حاصل کردہ پانی کو پکے کھالوں کے ذریعے زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے برؤے کار لایا گیا۔
IFAD
گلیشیئروں اور مقامی ندیوں اور دریاؤں سے حاصل کردہ پانی کو پکے کھالوں کے ذریعے زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے برؤے کار لایا گیا۔

خود کفالت

آبپاشی کے اس نظام سے ناصرف نئے کھیتوں کو پانی مہیا کیا جا رہا ہے بلکہ پہلے سے موجود کھیت بھی اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔ ہر گاؤں میں رہنے والے کنبوں کو ان کے ارکان کی تعداد کے لحاظ سے پانی میں حصہ دیا جاتا ہے۔

ایک اور مقامی کاشتکار شیر زمان نے بتایا کہ اب وہ اپنے مویشیوں کے لیے چارہ اور سال بھر استعمال کی گندم اور مکئی کاشت کرنے کے قابل ہو گئے ہیں۔

اس منصوبے کا مقصد کم از کم ایک لاکھ دیہی گھرانوں کی آمدنی اور ان کے لیے روزگار بڑھانا اور خطے میں غربت اور غذائی قلت میں کمی لانا ہے۔