انسانی کہانیاں عالمی تناظر

خواتین کے عالمی دن پر ڈیجیٹل صنفی مساوات مرکز توجہ

کیگالی، روانڈا، میں یہ کوڈر بچت اور مالی خودمختاری کی حوصلہ افزائی کے لیے ایپس تیار کرتی ہیں۔
© UNICEF/Mary Gelman
کیگالی، روانڈا، میں یہ کوڈر بچت اور مالی خودمختاری کی حوصلہ افزائی کے لیے ایپس تیار کرتی ہیں۔

خواتین کے عالمی دن پر ڈیجیٹل صنفی مساوات مرکز توجہ

خواتین

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بدھ کو ہر جا نیلا رنگ دکھائی دیا جب قریباً 1,800 افراد خواتین کا عالمی دن منانے کے لیے وہاں جمع ہوئے۔ اس سال مشمولہ اور تبدیلی لانے والی ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل تعلیم کی ضرورت اس دن کا خاص موضوع تھا۔

بہت سے شرکاء پیری ونکل سے لے کر نیلے رنگ کے لباس، سکارف یا دیگر ملبوسات زیب تن کیے ہوئے تھے جس کا مقصد ٹیکنالوجی کے شعبے میں کام کرنے والی خواتین کو خراج تحسین پیش کرنا تھا۔ یہ ایک ایسا شعبہ ہے جہاں اب بھی مردوں کا غلبہ ہے۔

Tweet URL

اس موقع پر جنرل اسمبلی کے صدر سابا کوروشی نے اپنے افتتاحی خطاب میں کہا کہ ''میں نے اس کمرے کو کم ہی اس قدر بڑی تعداد میں لوگوں سے بھرا اور توانائی سے معمور دیکھا ہے۔ یہ ان اعلیٰ مقاصد کی واضح علامت ہے جن کے لیے ہم یہاں جمع ہوئے ہیں اور جن کی ہم نمائندگی کر رہے ہیں۔''

ٹیکنالوجی اور مستقبل

جنرل اسمبلی کے صدر نے ٹیکنالوجی اور اختراع کے شعبے میں بڑے پیمانے پر صنفی شمولیت کے مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے اس کے پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جی) سے تعلق کو واضح کیا جو 2030 تک ایک مںصفانہ اور مساوی مستقبل ممکن بنانے کا خاکہ پیش کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس صدی کے وسط تک 75 فیصد نوکریوں کا تعلق سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ یا ریاضی (سٹیم) سے ہو گا۔ تاہم آج دنیا کی 20 سب سے بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کی افرادی قوت میں خواتین کی تعداد محض 30 فیصد ہے۔

وعدے اور خطرات

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے اس موقع پر اپنی چیف آف سٹاف کورٹنی ریٹرے کے ذریعے دیے گئے بیان میں کہا کہ ٹیکنالوجی دنیا بھر میں خواتین اور لڑکیوں کی زندگیوں کو بھی بہتر بنا سکتی ہے۔

یہ تعلیم، صحت اور مالیاتی خدمات تک رسائی کو وسعت دے سکتی ہے اور کاروبار اور کاروباری مہم جوئی کے لیے نئے راستے بھی مہیا کرتی ہے۔

تاہم ٹیکنالوجی سے کام لینے کا یہ مطلب بھی ہے کہ اس راہ میں خطرات کا مقابلہ بھی کرنا پڑتا ہے جس کے لیے ایسے اقدامات درکار ہیں جن میں ''رابطے کے خلا'' کو پُر کرنا بھی شامل ہے کیونکہ دنیا بھر میں تین بلین لوگ کی اب بھی انٹرنیٹ تک رسائی نہیں ہے جن میں زیادہ تعداد ترقی پذیر ممالک کی خواتین اور لڑکیوں کی ہے۔

گزشتہ سال ستمبر میں ڈورین بوگڈان۔مارٹن اطلاعاتی اور رابطے کی ٹیکنالوجی (آئی سی ٹی) سے متعلق اقوام متحدہ کے خصوصی ادارے کی سربراہ منتخب ہوئیں۔
UN Photo/Manuel Elías
گزشتہ سال ستمبر میں ڈورین بوگڈان۔مارٹن اطلاعاتی اور رابطے کی ٹیکنالوجی (آئی سی ٹی) سے متعلق اقوام متحدہ کے خصوصی ادارے کی سربراہ منتخب ہوئیں۔

خواتین پہلے

گزشتہ سال ستمبر میں ڈورین بوگڈان۔مارٹن اطلاعاتی اور رابطے کی ٹیکنالوجی (آئی سی ٹی) سے متعلق اقوام متحدہ کے خصوصی ادارے کی سربراہ منتخب ہوئیں۔ وہ بین الاقوامی مواصلاتی یونین (آئی ٹی یو) کی 158 سالہ تاریخ میں اس کی پہلی خاتون سیکرٹری جنرل ہیں۔

اپنے مرکزی خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ ''وقت تبدیل ہو رہا ہے''۔ انہوں نے ایسی داستانیں بیان کیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ کیسے نوجوان خواتین سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی سے کام لے رہی ہیں۔ نابینا افراد کی تعلیم تک رسائی بڑھانے اور مقامی باشندوں کو موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے میں مدد دینے کے اقدامات اس کی نمایاں مثال ہیں۔

انہوں نے دنیا بھر میں سبھی لوگوں کو باہم مربوط کرنے کے مقصد کی جانب عالمی رفتار کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ آئی ٹی یو کے زیرقیادت اتحاد نے ''ڈیجیٹل صنفی مساوات'' کے لیے 17 بلین ڈالر سے زیادہ وسائل جمع کیے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ''ہمارے پاس 300 سال میں نہیں بلکہ اپنی زندگیوں میں ہی صںفی مساوات یقینی بنانے کا ایک منفرد موقع ہے اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اس کے لیے راہ ہموار کر سکتی ہے۔ اب کہیں بھی ڈیجیٹل صںفی مساوات نہ ہونے کے لیے کوئی بہانے نہیں چلیں گے۔''

سیما باحوس کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی کے مہیا کردہ مواقع سے کام لینے اور اس کے ممکنہ نقصانات سے بچنے کے لیے حکومتوں، سول سوسائٹی اور نجی شعبے کی جانب سے اجتماعی کوششیں درکار ہیں۔
UN Photo/Manuel Elías
سیما باحوس کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی کے مہیا کردہ مواقع سے کام لینے اور اس کے ممکنہ نقصانات سے بچنے کے لیے حکومتوں، سول سوسائٹی اور نجی شعبے کی جانب سے اجتماعی کوششیں درکار ہیں۔

''ڈیجیٹل حقوق خواتین کے حقوق ہیں''

یو این ویمن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیما باحوس کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی اور اختراع تبدیلی لاتی ہیں جن میں بہت بڑے فوائد پوشیدہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ''اگر ہم ٹیکنالوجی اور اختراع کو دانشمندانہ طور سے استعمال کریں تو یہ ہمیں ایس ڈی جی کے حصول اور دنیا کو مزید پُرامن بنانے کی راہ پر واپس ڈال سکتی ہیں۔ اگر ان سے درست کام نہ لیا جائے تو یہ ہماری کوششوں کو غارت بھی کر سکتی ہیں۔ ہمیں انہی میں سے کوئی ایک انتخاب کرنا ہے۔

سیما باحوس کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی کے مہیا کردہ مواقع سے کام لینے اور اس کے ممکنہ نقصانات سے بچنے کے لیے حکومتوں، سول سوسائٹی اور نجی شعبے کی جانب سے اجتماعی کوششیں درکار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ''آئیے پُرزور انداز میں کہیں کہ ڈیجیٹل حقوق خواتین کے حقوق ہیں۔'' اس موقع پر شرکا نے تالیاں بجائیں۔ سیما باحوس کا کہنا تھا کہ ''ہمیں اداروں کو درست کرنے اور ٹیکنالوجی، اختراع اور تعلیم سے وابستہ نقصان دہ صںفی دقیانوسی تصورات کا خاتمہ کرنے کی ضرورت ہے جو خواتین اور لڑکیوں کو ناکام کرتے ہیں اور کر رہے ہیں۔''