انسانی کہانیاں عالمی تناظر

ڈیجیٹل ٹیکنالوجی خواتین کے خلاف تعصب کا ایک نیا ذریعہ: گوتیرش

دنیا میں 69% مردوں جبکہ 63% خواتین کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے۔
© Ed Pagria
دنیا میں 69% مردوں جبکہ 63% خواتین کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے۔

ڈیجیٹل ٹیکنالوجی خواتین کے خلاف تعصب کا ایک نیا ذریعہ: گوتیرش

خواتین

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ہال میں سول سوسائٹی کی خواتین رہنماؤں کے ساتھ بات چیت میں سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش کو بتایا گیا ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کے لیے انٹرنیٹ کو محفوظ بنانے کی ضرورت ہے۔

غیرسرکاری اداروں (این جی اوز) کے نمائندوں کا یہ اجلاس خواتین کی صورتحال کے بارے میں اقوام متحدہ کے کمیشن (سی ایس ڈبلیو) کے سالانہ اجلاس کا حصہ تھا جو ہر سال مارچ میں نیویارک میں منعقد ہوتا ہے۔ اس موقع شرکاء نے کہا کہ آن لائن اور بالمشانہ بین الاقوامی بات چیت میں خواتین کی مردوں کے مساوی نمائندگی یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔

Tweet URL

کمیٹی کے زیراہتمام 'سی ایس ڈبلیو 67' کے نام سے یہ تازہ ترین اجلاس جمعے تک جاری رہے گا جس میں 'ڈیجیٹل دور میں اختراع، ٹیکنالوجی، تبدیلی اور تعلیم' بات چیت کا خاص موضوع ہے۔

مردوں کا غلبہ

بات چیت سے پہلے اپنے خطاب میں سیکرٹری جنرل نے کئی سال تک بہتر پیش رفت کے بعد دنیا بھر میں خواتین اور لڑکیوں کو حقوق کی فراہمی میں آنے والے تنزل کے بارے میں بات کی۔

انہوں ںے کہا کہ ''آج ہمیں جنگ سے لے کر موسمیاتی ابتری اور رہن سہن کے اخراجات میں اضافے تک جتنے بھی مسائل کا سامنا ہے وہ سب دنیا پر مردوں کے غلبے کا نتیجہ ہیں۔ دنیا میں مردوں کے غلبے کا ماحول ہے اور مرد ہی ہماری دنیا کے بارے میں اہم فیصلے کرتے ہیں۔''

نئے امتیازی رویے

انتونیو گوتیرش نے کہا کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی ایک ایسی صنعت کی پیداوار ہے جس پر مردوں کا اجارہ ہے اور اس ٹیکنالوجی نے امتیاز اور تعصب کا ایک نیا ذریعہ پیش کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ''حقائق پیش کرنے اور تعصب سے نمٹںے کے بجائے ٹیکنالوجی کی بنیاد نامکمل معلومات اور ناقص طریقے سے ترتیب دیے گئے حساب کتاب پر ہے جو جنسی تعصب کو بڑھاوا دے رہا ہے اور اس کے مہلک نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔''

اس حوالے سے مثال پیش کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ''مردوں کے بارے میں معلومات کی بنیاد پر کیے گئے طبی فیصلے خواتین کی صحت کو نقصان دے سکتے ہیں۔ کاروں کی صنعت میں مردوں کے جسم کی بنیاد پر وضع کیے گئے حفاظتی طریقے خواتین کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔''

انہوں نے مزید کہا کہ صنفی ڈیجیٹل تقسیم تیزی سے صںفی عدم مساوات کا نیا چہرہ بنتی جا رہی ہے۔ آن لائن دنیا خواتین اور لڑکیوں کے لیے محفوظ نہیں ہے جنہیں انٹرنیٹ پر حملوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے یا بدنام کیا جاتا ہے۔

مزید برآں انہوں نے دقیانوسی سوچ اور تصورات کا تذکرہ کیا جو ''لڑکیوں کو سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی سے دور رکھتے ہیں اور خواتین سائنس دانوں کے کیریئر میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ''12 مرد چاند پر جا چکے ہیں لیکن کسی خاتون کو کبھی یہ موقع نہیں ملا۔

سیکرٹری جنرل کے ساتھ بات چیت کی نظامت یو این ویمن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیما باحوس نے کی۔
UN Photo/Eskinder Debebe
سیکرٹری جنرل کے ساتھ بات چیت کی نظامت یو این ویمن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیما باحوس نے کی۔

'آگے بڑھتے رہیں'

انتونیو گوتیرش نے کہا کہ اس صورتحال کو تبدیل ہونا چاہیے اور پدرشاہی غلبے کے مقابل عالمی برادری کو خواتین، لڑکیوں اور دنیا کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔

سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ''پالیسی سازوں کو خواتین اور لڑکیوں کے مساوی حقوق اور ان کے لیے سیکھنے کے مواقع کو فروغ دے کر اور ان کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ہٹاتے ہوئے انقلابی تبدیلی لانی چاہیے اور ایسے حالات پیدا کرنے چاہئیں جو اس تبدیلی کے لیے سازگار ہوں۔

انہوں نے تمام رہنماؤں سے کہا کہ وہ خواتین اور لڑکیوں میں تعلیم کے فروغ اور انہیں ڈیجیٹل صلاحیتوں سے بہرہ ور کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی سفارشات پر فوری عمل کریں اور ایسا ڈیجیٹل حساب کتاب بھی ترتیب دیں جو دیگر اقدامات کے علاوہ انسانی حقوق اور صںفی مساوات سے بھی ہم آہنگ ہو۔

سائبر جرائم پر سزا

اس بات چیت کی معاونت یو این ویمن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیما باحوس نے کی۔ سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ اجلاس کے شرکا ان سے صرف سوال ہی نہ کریں بلکہ تبصرے، تجاویز اور نئے تصورات بھی پیش کریں۔ 

انہوں نے تین تین افراد کے گروہ کی صورت میں شرکا سے بات چیت کی۔ اس دوران ان لوگوں نے بحیثیت مجموعی مسائل کا تذکرہ کیا جس کے بعد سیکرٹری جنرل نے ہر ایک کی بات کا جواب دیا۔

سیکرٹری جنرل نے کہا کہ انہیں رکاوٹوں کے بارے میں سن کر حیرانی ہوئی ہے کیونکہ ہدایات یہ تھیں کہ تمام حاضرین کو اقوام متحدہ کے دفتر میں داخل ہونے دیا جائے۔

سیکرٹری جنرل نے خواتین اور لڑکیوں کے خلاف سائبر حملوں کے ذمہ داروں سے موثر جواب طلبی کے مطالبات سے بھی اتفاق کیا جسے انہوں نے ایک ایسا معاملہ قرار دیا جس کا اقوام متحدہ کے رکن ممالک کو سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہیے۔