انسانی کہانیاں عالمی تناظر

خواتین کی زیادہ سے زیادہ شمولیت سے سائنس بہتر ہوگی: یو این چیف

امریکہ کی میزوری یونیورسٹی آف سائنس و ٹینکالوجی کے طلباء اپنے بنائے ہوئے ایک روبوٹ کو آزما رہے ہیں۔
© Missouri S&T/Michael Pierce
امریکہ کی میزوری یونیورسٹی آف سائنس و ٹینکالوجی کے طلباء اپنے بنائے ہوئے ایک روبوٹ کو آزما رہے ہیں۔

خواتین کی زیادہ سے زیادہ شمولیت سے سائنس بہتر ہوگی: یو این چیف

خواتین

سائنس میں صنفی تعصب کے باعث ادویات کی پرکھ کے دوران خواتین کے جسم کو خرابی سمجھا جاتا ہے اور تحقیقی تخمینہ کاری صنفی تفریق کو دوام دیتی ہے۔ اس مسئلے کا آسان حل یہ ہے کہ اس شعبے میں خواتین اور مستقبل میں اسے اختیار کرنے والی لڑکیوں کی تعداد بڑھائی جائے۔

یہ پیغام اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے سائنس میں خواتین اور لڑکیوں کے عالمی دن پر جاری کیا ہے جنہوں ںے اس شعبے میں ان کی تعداد بڑھانے کے لیے ٹھوس اقدامات کی اپیل کی ہے۔

Tweet URL

تنوع اور نئے تناظر

انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ ''سائنس کے شعبے میں خواتین اور لڑکیوں کے اس عالمی دن پر ہم ایک سادہ سی بات کو واضح کرتے ہیں کہ سائنس میں خواتین اور لڑکیوں کی تعداد جتنی زیادہ ہو گی سائنس اتنی ہی بہتر ہو گی۔

خواتین اور لڑکیاں تحقیق میں تنوع لاتی ہیں، سائنسی ماہرین کی تعداد کو بڑھاتی ہیں اور سائنس و ٹیکنالوجی کے حوالے سے نئے تناظر مہیا کرتی ہیں جس سے سبھی کو فائدہ ہوتا ہے۔''

اصولی طور پر سائنس کو سب کے لیے عام ہونا چاہیے لیکن اب بھی اس شعبے میں مردوں کا غلبہ ہے۔

غیر مستعمل صلاحیت

سیکرٹری جنرل نے اس صورتحال کو تبدیل کرنے کے لیے نئے وظائف، تربیتی عمل اور منصوبوں جیسے اقدامات پر زور دیا ہے تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ خواتین کو مشکلات پر قابو پانے اور اپنے کیریئر بنانے میں مدد دینے کے لیے ترغیبات اور رہنمائی کے پروگرام بھی ضروری ہیں۔

انہوں نے خواتین کے حقوق یقینی بنانے اور دقیانوسی تصورات، تعصبات اور ساختیاتی رکاوٹوں کو دور کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

انتونیو گوتیرش نے کہا کہ ہم سب کمرہ ہائے جماعت، لیبارٹریوں اور اداروں کے بورڈ میں خواتین کی بڑی تعداد کو شامل کر کے اپنی دنیا کی اس بے پایاں صلاحیت کو سامنے لا سکتے ہیں جس سے تاحال پورا کام نہیں لیا جا سکا۔

صنفی نابرابری اور تعصب

اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارے (یونیسکو) کے مطابق، اگرچہ اب ماضی نسبت کہیں بڑی تعداد میں لڑکیاں سکولوں میں زیرتعلیم ہیں لیکن 'سٹیم' یعنی سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کی تعلیم حاصل کرنے والی خواتین اور لڑکیوں کی تعداد بہت کم ہے۔

ہر تین سائنسی محققین میں صرف ایک خاتون ہوتی ہے اور سٹیم سے متعلقہ شعبوں میں خواتین گریجوایٹس کی تعداد صرف 35 فیصد ہے۔

مصنوعی ذہانت جیسے جدید شعبوں میں ان کی تعداد اور بھی کم ہے جہاں ہر پانچ پیشہ ور افراد میں سے صرف ایک خاتون ہوتی ہے۔

دقیانوسی تصورات

صنفی مساوات کے لیے کام کرنے والے ادارے یو این ویمن کی سربراہ سیما باحوس نے کہا ہے کہ سائنس کے شعبے میں کام کرنے والی یا اس شعبے میں آنے کے لیے زیر تعلیم خواتین کی کم تعداد دنیا بھر میں انہیں درپیش امتیازی سلوک کی براہ راست عکاسی کرتی ہے۔

پسماندہ خواتین اور لڑکیوں پر یہ بات اور بھی صادق آتی ہے جن میں مقامی باشندوں اور افریقی پس منظر سے تعلق رکھنے والی خواتین، معذور ، دیہی علاقے میں رہنے والی یا ایل جی بی ٹی کیو آئی+ شناخت کی حامل خواتین شامل ہیں۔

باحوس نے کہا کہ ''لڑکیوں کو ابتدائی عمر میں ہی صنفی تعصب کا سامنا ہونے لگتا ہے جبکہ صنفی حوالے سے دقیانوسی تصورات اور قواعد اسے تقویت دیتے ہیں۔

ان کا مشاہدہ نصاب، نصابی کتابوں اور تدریسی و تعلیمی عمل میں کیا جا سکتا۔ سکولوں میں لڑکیوں کو جن چیزوں کا انتخاب کرنا پڑتا ہے ان کے اثرات بالغ ہونے پر ان کے کیریئر اور ملازمت کے مواقع پر پڑتے ہیں۔

ایک خاتون سائنسدان لیبارٹری میں مصروف عمل ہے۔
CDC
ایک خاتون سائنسدان لیبارٹری میں مصروف عمل ہے۔

'بنیادی تبدیلی' کی ضرورت

انہوں نے کہا کہ اس صورتحال کو تبدیل کرنے کے لیے ''بنیادی نوعیت کی تبدیلی'' اور لڑکیوں اور خواتین کی راہ میں حائل ساختیاتی رکاوٹوں کا اعتراف کرنے اور پھر انہیں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

سیما باحوس کے مطابق اس کا نتیجہ تعلیمی اصلاحات کی صورت میں نکلنا چاہیے جس میں ''ایسا نیا نصاب بھی شامل ہو جو اوائل عمری سے ہی سائنسی دریافتوں کے لیے لڑکیوں میں تجسس بیدار کرے۔ ان میں پرائمری سکولوں کے ذریعے سائنس اور ٹینالوجی کے مضامین کی تعلیم دینا بھی شامل ہے۔

یا جیسا کہ اقوام متحدہ کے سربراہ نے واضح طور پر کہا ''ہمیں سائنس دان خواتین اور لڑکیوں کو ترقی دینے کے لیے مزید کام کرنا چاہیے اور ہم کر سکتے ہیں۔''

نمایاں مثالیں

یونیسکو اقوام متحدہ کے ان اداروں میں شامل ہے جو سائنسی مضامین پڑھنے کے لیے لڑکیوں اور خواتین کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں اور اس نے مشرقی افریقہ میں ایک رہنما پروگرام شروع کیا ہے جس سے اب تک 11 ملین طلبہ خصوصاً خواتین مستفید ہو چکی ہیں۔

1998 سے یونیسکو اور لوریئل فاؤنڈیشن ایک اعزازی تقریب کا انعقاد کر رہے ہیں جس کا مقصد دنیا بھر سے غیرمعمولی خواتین سائنس دانوں کی خدمات کا اعتراف کرنا ہے۔

اس عرصہ میں 120 سے زیادہ خواتین کو اعزازات سے نوازا جا چکا ہے جن میں سے پانچ نے نوبیل انعام بھی حاصل کیا ہے۔