انسانی کہانیاں عالمی تناظر

پناہ گزینوں کے مددگاروں کے خلاف یونان میں مقدمات ختم کرنے کی اپیل

یونان کے ساحل پر پہنچنے والے پناہ کے متلاشیوں کو رضاکار ربڑ کی کشتیوں سے اترنے میں مدد دے رہے ہیں۔
© UNICEF/Ashley Gilbertson VII Photo
یونان کے ساحل پر پہنچنے والے پناہ کے متلاشیوں کو رضاکار ربڑ کی کشتیوں سے اترنے میں مدد دے رہے ہیں۔

پناہ گزینوں کے مددگاروں کے خلاف یونان میں مقدمات ختم کرنے کی اپیل

مہاجرین اور پناہ گزین

اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) نے یونان کے حکام سے اپیل کی ہے کہ وہ ان دو درجن امدادی کارکنوں کے خلاف مقدمہ ختم کریں جنہوں نے سمندر میں مصیبت کا شکار تارکین وطن کی جان بچائی تھی۔

یونان کے سمندر میں مہاجرین کی جان بچانے والے 24 رضاکاروں اور امدادی کارکنوں کے خلاف مقدمے کی کارروائی منگل کو جزیرے لیزووس میں شروع ہو گئی ہے۔

Tweet URL

اس موقع پر 'او ایچ سی ایچ آر' نے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے دیگر لوگوں پر اس مقدمے کے "خوفناک اثرات'' کے بارے میں متنبہ کیا ہے جنہوں نے اب یونان اور یورپی یونین کے دیگر ممالک میں اپنا کام روک دیا ہے۔

'او ایچ سی ایچ آر' نے کہا ہے کہ مقدمے کا سامنا کرنے والوں کا تعلق 'ایمرجنسی رسپانس سنٹر انٹرنیشنل' (ای آر سی آئی) سے ہے۔ 2016 اور 2018 کے درمیانی عرصہ میں اس گروپ نے 1,000 سے زیادہ لوگوں کو تحفظ دیا اور انہیں لیزووس میں طبی امداد اور دیگر مدد فراہم کی۔

معقول آواز

اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے دفتر کی ترجمان لِز تھروسیل کا کہنا ہے کہ ''میرے خیال میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ لوگ سمندر میں مصیبت کا شکار ہیں، ان کی کشتیاں ڈوب چکی ہیں یا ڈوب سکتی ہیں، وہ پانی میں ہیں اور کوئی انہیں بچانے والا نہیں۔

اسی لیے ہم کہہ رہے ہیں کہ یہ مقدمہ اور اس جیسے مقدمے یقیناً تشویش کا باعث ہیں کیونکہ ان میں لوگوں کی زندگیاں بچانے کے اقدامات کو مجرمانہ عمل قرار دیا گیا ہے۔''

تھروسیل نے جنیوا میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جن لوگوں پر یہ مقدمہ چلایا جا رہا ہے ان میں ایک شامی پناہ گزین اور آئرش نژاد جرمن شہری شوآن بینڈر جیسے غیرملکی بھی شامل ہیں۔

'او ایچ سی ایچ آر' کی عہدیدار نے واضح کیا کہ ملزموں کو جن الزامات کا سامنا ہے ان میں تارکین وطن کی سمگلنگ میں سہولت دینا بھی شامل ہے۔ انہوں نے اس خبر کا خیرمقدم کیا کہ استغاثہ نے ایسے بعض الزامات واپس لینے کی سفارش کی ہے۔

'جان بچانا جرم نہیں'

تھروسیل نے کہا کہ اس وقت یونان کے سمندر میں سول سوسائٹی کی کوئی بچاؤ ٹیم کام نہیں کر رہی حالانکہ اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ مہاجرت (آئی او ایم) کےمطابق 2021 سے اب تک مشرقی بحیرہ روم میں 492 تارکین وطن ہلاک یا لاپتہ ہو چکے ہیں۔

او ایچ سی ایچ آر کی ترجمان نے مزید کہا کہ ہنگری، اٹلی اور مالٹا سمیت یورپی یونین کے متعدد دیگر ممالک میں بھی اسنانی حقوق کے کارکنوں پر مقدمے چلائے جا چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ''جانیں بچانا اور انسانی امداد مہیا کرنا بہت اہم ہے اور کسی ملک کو اسے جرم قرار نہیں دینا چاہیے۔ اسی لیے اس خاص طور پر اس مقدمے میں ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ ان ملزموں کے خلاف الزامات واپس لیے جائیں۔''

لاپتہ مہاجرین سے متعلق آئی او ایم کا منصوبہ اس خطے میں مہاجروں کے جانی نقصان کے بارے میں تازہ ترین معلومات فراہم کرتا ہے اور اس نے 2014 سے اب تک مشرقی بحیرہ روم کے سمندری راستے پر قریباً 1,700 لوگوں کے ہلاک اور لاپتہ ہونے کے بارے میں بتایا ہے جن میں قریباً 500 بچے بھی شامل ہیں۔

ان میں بہت سے متاثرین کے بارے میں علم ہوا ہے کہ وہ شام، عراق اور افغانستان سے آئے تھے۔

پناہ گزینوں سے لدی ربڑ کی کشتی یونانی جزیرے لیزبوز پہنچ رہی ہے۔
© UNICEF/Ashley Gilbertson VII Photo
پناہ گزینوں سے لدی ربڑ کی کشتی یونانی جزیرے لیزبوز پہنچ رہی ہے۔