انسانی کہانیاں عالمی تناظر

لاقومیتی کے خاتمے میں قانونی بے یقینی کا خاتمہ ضرروی: سربراہ ادارہ برائے مہاجرین

تاجکستان کے شہر دوشنبے میں لاقومیت کا شکار ایک خاندان شناختی کاغذات ملنے پر مسرت کا اظہار کر رہا ہے
© UNHCR/Didor Saidulloyev
تاجکستان کے شہر دوشنبے میں لاقومیت کا شکار ایک خاندان شناختی کاغذات ملنے پر مسرت کا اظہار کر رہا ہے

لاقومیتی کے خاتمے میں قانونی بے یقینی کا خاتمہ ضرروی: سربراہ ادارہ برائے مہاجرین

مہاجرین اور پناہ گزین

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین فلیپو گرینڈی نے دنیا بھر میں پھیلے تقریباً 4.3 ملین بے ریاست لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لیے مضبوط سیاسی عزم اور عملی اقدامات کے لیے کہا ہے جو ''شہریت کے بغیر کمزور ہیں اور نظرانداز کیے جا رہے ہیں۔''

ان کا کہنا ہے کہ کسی کا بے ریاست ہونا ''انسانی حقوق کی گہری اور سنگین خلاف ورزی اور انسانیت کے وجود پر ناسور کی مانند ہے۔''

Tweet URL

بے ریاست پیدا ہونے والے یا کر دیے جانے والے لوگ قومیت کے بنیادی حق سے محروم ہوتے ہیں اور انہیں تباہ کن قانونی فراموشی کا سامنا ہوتا ہے۔ انہیں ان کے بنیادی انسانی حقوق تک رسائی اور معاشرے میں بھرپور کردار ادا کرنے سے روکا جاتا ہے۔ ان کی زندگیاں اخراج، محرومی اور پسماندگی سے عبارت ہوتی ہیں۔''

'ہم سب کی شناخت ہے'

گرینڈی نے بے ریاست افراد کے لیے یہ اپیل جمعے کو #IBelong کو آٹھ سال مکمل ہونے پر کی ہے جو اقوام متحدہ میں مہاجرین کے امور سے متعلق ادارے 'یو این ایچ سی آر' کی شروع کردہ مہم ہے اور جس کا مقصد ایک دہائی میں یا 2024 تک بے ریاستی کو دنیا بھر سے ختم کرنا ہے۔

اس حوالے سے تاحال عبوری پیش رفت ہوئی ہے۔ قریباً 450,000 بے ریاست افراد نے یا تو شہریت حاصل کر لی ہے یا ان کی شہریت طے ہو چکی ہے۔

مزید برآں نئی نافذ کردہ قانونی تبدیلیوں کی بدولت ایشیا، یورپ، افریقہ اور براعظم ہائے امریکہ میں اب لاکھوں لوگوں کے پاس شہریت کے حصول کا راستہ موجود ہے۔

غالباً بہت سے لوگ اپنی شہریت کی زیادہ پروا نہیں کرتے لیکن دستاویزات نہ ہونے کے باعث زندگی مشکل ہو سکتی ہے۔ 30 سالہ لِنڈا نے اپنی بیشتر زندگی میں یہی جانا ہے۔

'یقیناً اب میں وجود رکھتی ہوں'

اگرچہ لِنڈا ماسکو میں پیدا ہوئی تھیں تاہم ان کے پاس روس کی شہریت نہیں تھی۔ مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والی ان کی والدہ صحافت کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے روس آئی تھیں۔ چونکہ ان کا کوئی ملک نہ تھا اس لیے ان کی بیٹی بھی بے ریاست ٹھہریں۔

دستاویزات کے بغیر لِنڈا کے لیے بینک اکاؤنٹ کھولنا، کرایے پر اپارٹمنٹ لینا حتیٰ کہ فون کے لیے سِم کارڈ خریدنا بھی ممکن نہیں تھا۔

شہریت حاصل کرنے سے کئی سال بعد انہوں نے 'یو این ایچ سی آر' کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ''10 نومبر 2018 کو مجھے ایک خط موصول ہوا جس میں مجھے روس کی شہریت ملنے کی اطلاع دی گئی۔ یہ بہت جذباتی لمحہ تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ اب میں واقعی وجود رکھتی ہوں۔''

عالمی مسئلہ اور مقامی حل

اقوام متحدہ کے ادارے نے #IBelong مہم شروع ہونے کے بعد اس حوالے سے اٹھائے گئے دیگر اقدامات اور مسئلے کو حل کرنے کے طریقوں کے بارے میں بتایا ہے۔

تین ممالک نے شہریت کے ایسے قوانین میں اصلاح کی ہے جو صنفی امتیاز پر مبنی تھے اور یہ وہاں بے ریاستی کی ایک بنیادی وجہ تھی۔ تاہم 24 حکومتیں مردوں سے برعکس خواتین کے بچوں کو قومیت دینے کے مساوی حقوق مہیا کرنے سے اب بھی انکاری ہیں۔

مزید برآں، یو این ایچ سی آر کا کہنا ہے کہ بے ریاستی کو ختم کرنے کے لیے ہونے والی پیش رفت کی راہ میں دیگر رکاوٹیں بھی حائل ہیں جن کی بنیاد عام طور پر نسل، مذہب یا قومیت کی بنیاد پر امتیازی سلوک پر ہوتی ہے۔

گرینڈی کے مطابق ''اگرچہ بے ریاستی مختلف وجوہات کا حامل ایک عالمی مسئلہ ہے تاہم اسے اکثر نہایت سادہ اور مقامی سطح کے طریقوں سے حل کیا جا سکتا ہے۔''

ان کا کہنا تھا کہ ''میں دنیا بھر کی حکومتوں اور قانون سازوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس مہم کے آئندہ دو برس اس معاملے میں عملی اقدامات کی رفتار تیز کرنے اور بے ریاستی کو ختم کرنے کی راہ میں قانون اور پالیسی سے متعلق ایسی خامیوں کو دور کرنے پر صرف کریں جن کے باعث لاکھوں لوگ دوسروں سے پیچھے ہیں۔''