انسانی کہانیاں عالمی تناظر

بحیرہ روم میں مہاجرین کی ہلاکتیں روکنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت

چودہ جون کو مہاجرین کی کشتی کو پیش آنے والا حادثہ یونانی ساحلوں پر ہونے والے بڑے حادثات میں سے ایک ہے۔
IOM/Amanda Nero
چودہ جون کو مہاجرین کی کشتی کو پیش آنے والا حادثہ یونانی ساحلوں پر ہونے والے بڑے حادثات میں سے ایک ہے۔

بحیرہ روم میں مہاجرین کی ہلاکتیں روکنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت

مہاجرین اور پناہ گزین

اقوام متحدہ میں پناہ گزینوں اور مہاجرت کے ادارے بدھ کو بحیرہ روم میں پیش آنے والے المیے کے بعد سمندر میں مزید اموات کو روکنے کے لئےفوری اور فیصلہ کن اقدامات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

اس واقعے کے بعد سمندر سے 78 لاشیں نکال لی گئی ہیں اور 104 افراد کو بچایا جا چکا ہے جبکہ مزید سینکڑوں افراد لاپتہ ہیں جن کے بارے میں خدشہ ہے کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں۔ 14 جون کو یونان کے ساحل کے قریب کشتی ڈوبنے کا یہ واقعہ گزشتہ برسوں میں پیش آنے والے ایسے بدترین اور انتہائی جان لیوا حادثات میں سے ایک ہے۔

Tweet URL

مصیبت زدہ لوگوں کو بچانے کا فریضہ 

اقوام متحدہ میں پناہ گزینوں کے ادارے 'یو این ایچ سی آر' اور ادارہ برائے مہاجرت 'آئی او ایم' نے کہا ہے کہ سمندر میں مصیبت کا شکار لوگوں کو بلاتاخیر تحفظ دینا بین الاقوامی سمندری قانون کی بنیاد ہے۔ 

انہوں ںے کہا کہ بحیرہ روم کی گزرگاہ دنیا میں مہاجرت کے خطرناک ترین اور جان لیوا راستوں میں سے ایک ہے اور یہاں غیرقانونی تارکین وطن کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے موجودہ طریقہ کار ناقابل عمل ہے۔ 

منگل کو آئی او ایم کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ برس مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں اور ان خطوں کی جانب سے مہاجرت کے راستوں پر 3,800 افراد ہلاک ہوئے جو کہ 2017 کے بعد سب سے بڑی تعداد ہے۔ 

حالیہ المیے نے ان ہولناک اعدادوشمار میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ اگرچہ کشتی پر موجود لوگوں کی تعداد تاحال واضح نہیں ہے لیکن عام خیال یہ ہے کہ اس پر 400 سے 750 تک لوگ سوار تھے۔ 

اطلاعات کے مطابق منگل کی صبح کشتی کو مشکلات کا سامنا تھا۔ 14 جون کی صبح کشتی الٹ جانے کے بعد ہیلینک کوسٹ گارڈ نے بڑے پیمانے پر تلاش اور بچاؤ کی کارروائی کا اعلان کیا۔ 

اقوام متحدہ کی مدد 

یو این ایچ سی آر اور آئی او ایم کے نمائندے جنوبی یونان کے ساحلی علاقے کالاماتا میں حکام کے ساتھ مل کر اس حادثے میں بچ رہنے والوں کو مدد مہیا کر رہے ہیں۔

اس امداد میں غیرغذائی اشیا، صحت و صفائی کا سامان، ترجمان کی خدمات اور نفسیاتی مدد شامل ہے۔ 

اداروں نے کہا ہے کہ وہ یونان کے حکام کی جانب سے اس حادثے کا باعث بننے والے حالات کے بارے میں جاری تحقیقات کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ 

'ناقابل عمل' 

یہ واضح ہے کہ بحیرہ روم میں تارکین وطن کے مسئلے سے نمٹںے کا موجودہ طریقہ ناقابل عمل ہے۔ سالہا سال سے یہ دنیا میں مہاجرت کا مشکل ترین راستہ چلا آ رہا ہے جس پر ہلاکتوں کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ 

آئی او ایم میں ہنگامی حالات کے شعبے کے ڈائریکٹر فیڈریسو سوڈا نے کہا ہے کہ ممالک کو اکٹھے ہو کر تلاش و بچاؤ کی کارروائیوں میں پائی جانے والی خامیوں کو دور کرنے، لوگوں کو فوری ساحل پر پہنچانے اور محفوظ باقاعدہ راستے تشکیل دینے کے لئے کام کرنا ہو گا۔

یو این ایچ سی آر نے یورپی یونین سے کہا ہے کہ وہ بحیرہ روم میں اپنے اقدامات میں تحفظ اور یکجہتی کو مرکزی اہمیت دے۔ 

یو این ایچ سی آر میں تحفظ سے متعلق امور پر اسسٹنٹ ہائی کمشنر گیلیئن ٹریگز کا کہنا ہے کہ تارکین وطن کی بڑی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے زندگیاں بچانے کی غرض سے اجتماعی کوششیں بشمول بحیرہ روم کے خطے کے تمام ممالک کے مابین بھرپور ارتباط، یکجہتی اور ذمہ داری کا تبادلہ ضروری ہے جس کا تذکرہ مہاجرت اور پناہ سے متعلق یورپی یونین کے معاہدے میں بھی کیا گیا ہے۔ 

ادارہ تارکین وطن کو ساحل پر لانے اور ان کی تقسیم نو کے لئے ایک متفقہ علاقائی طریقہ کار کے قیام کے لئے بھی زور دے رہا ہے۔ 

انسانی سمگلروں کا احتساب 

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر تُرک نے اس معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے نے انسانی سمگلروں کے خلاف مکمل تحقیقات اور انہیں یقینی طور پر انصاف کے کٹہرے میں لانے کی ضرورت کو واضح کر دیا ہے۔ 

انہوں نے اس حادثے میں بچ جانے والوں اور ہلاک ہونے والے افراد کے خاندانوں سے یکجہتی کا اظہار کیا جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ 

ہائی کمشنر نے ممالک پر زور دیا کہ وہ مہاجرت کے مزید باقاعدہ راستے کھولیں، ذمہ داری کے تبادلے میں اضافہ کریں اور سمندروں میں بچائے جانے والے تمام لوگوں کی ساحلوں پر محفوظ اور بروقت منتقلی یقینی بنائیں۔