انسانی کہانیاں عالمی تناظر

نسل کُشی کا خطرہ اب بھی موجود، متاثرین کی یاد میں گوتیرش کا انتباہ

روانڈا میں 1994 میں ہوئی نسل کُشی میں بچ جانے والی سترہ سالہ یہ لڑکی اپنے چہرے پر لگے زخموں کے داغ دکھا رہی ہے۔
© UNICEF/Giacomo Pirozzi
روانڈا میں 1994 میں ہوئی نسل کُشی میں بچ جانے والی سترہ سالہ یہ لڑکی اپنے چہرے پر لگے زخموں کے داغ دکھا رہی ہے۔

نسل کُشی کا خطرہ اب بھی موجود، متاثرین کی یاد میں گوتیرش کا انتباہ

انسانی حقوق

دنیا بھر میں نفرت کے بڑھتے ہوئے اظہار اور تفریق کے ردعمل میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ اقلیتوں اور دیگر طبقات کو نسل کشی کے خطرے سے بچانے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں۔

جمعے کو نسل کشی کے جرائم کے متاثرین کی یاد، ان کی تکریم اور اس جرم کی روک تھام کے دن پر اپنے پیغام میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ ''نسل کشی کی روک تھام ممالک کی بنیادی ذمہ داری ہے تاہم مذہبی اور مقامی رہنما، سول سوسائٹی، نجی شعبہ اور میڈیا بشمول سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم بھی اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔''

Tweet URL

ناکام کیوں؟

سیکرٹری جنرل کے مطابق یہ عالمی دن دنیا بھر میں نسل کشی کے متاثرین اور ایسے جرائم میں بچ جانے والوں کو یاد کرنے اور انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کا موقع ہے۔

انہوں نے کہا کہ ''یہ ماضی میں اس جرم کی روک تھام میں ہماری مجموعی ناکامی کا ازسرنو جائزہ لینے کے علاوہ حال اور مستقبل میں اس کی روک تھام کی کوششوں میں اضافے کے عہد کا دن ہے۔''

انہوں نے خبردار کیا کہ عالمی برادری کی جانب سے نسل کشی کی روک تھام اور اس جرم پر سزا کے بارے میں معاہدے منظوری کو 70 سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود ''دنیا بھر میں بہت سی جگہوں پر نسل کشی کا خطرہ بدستور موجود ہے۔''

'ابتدائی انتباہی علامات' میں اضافہ

سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ''تفریق اور نفرت پر مبنی اظہار نسل کشی کی ابتدائی انتباہی علامات ہیں جن میں ہر جگہ اضافہ ہو رہا ہے۔''

ان کا کہنا تھا کہ ''ہمیں ان خطرناک رحجانات کے خلاف مضبوط سیاسی قیادت اور پرعزم اقدام کو فروغ دینے کے لیے مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں انسانیت کو نسل کشی کی لعنت سے چھٹکارا دلانے کی خاطر اپنے وعدوں کی تکمیل کے لیے مزید کام کرنا ہو گا۔''

نسل کشی کی روک تھام اور خاتمہ

انتونیو گوتیرش نے بتایا کہ گزشتہ مہینے انہوں نے کمبوڈیا کے دارالحکومت نوم پِن میں ٹول سلینگ نسل کشی میوزم کا دورہ کیا تھا۔

اس موقع پر انہوں نے ظالمانہ کھمیر روج حکومت کے دوران ڈھائے جانے والے مظالم کے متاثرین سے ملاقات کی جن کی پُراثر گواہی نسل کشی اور ظالمانہ جرائم کے نتیجے میں انفرادی مصائب، تکلیف اور دہشت کی بھرپور یاد دہانی تھی۔

انتونیو گوتیرش نے کہا کہ ''میں اقوام متحدہ کے ہر رکن ملک سے کہتا ہوں کہ وہ اقلیتوں سمیت غیرمحفوظ لوگوں کو تحفظ دینے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں اور تفریق و جبر پر قابو پائیں۔

نسل کشی کے جرم کے متاثرین کی یاد اور انہیں تکریم پیش کرنے کے اس عالمی دن پر میں تمام فریقین پر زور دیتا ہوں کہ وہ اس جرم کی روک تھام کے لیے ہرممکن ذرائع سے کام لیں۔''

کھیلوں کی طاقت

نسل کشی کی روک تھام کے حوالے سے سیکرٹری جنرل کی خصوصی مشیر ایلس ڈیریٹو نے بھی عالمگیر اقدام کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے اس دن کی مناسبت سے نیویارک میں ہونے والی ایک تقریب  سے خطاب کیا جس میں مظالم کی روک تھام میں کھیلوں کے کردار کا جائزہ لیا گیا۔

ڈیریٹو نے کہا کہ نفرت پر مبنی اظہار سے لاحق خطرات اور اس پر قابو نہ پانے کے اثرات تاریخ سے ثابت ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ''نفرت پر مبنی اظہار ناصرف خطرے کی علامت ہوتا ہے بلکہ یہ نسل کشی، جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف مجرمانہ اقدامات کا باعث بھی بنتا ہے۔''

انہوں نے مزید کہا کہ ''ہم نے ہولوکاسٹ، روانڈا میں تتسیوں کے قتل عام اور سربرنیکا کے واقعات سے قبل بھی یہی دیکھا جہاں لوگوں سے غیرانسانی سلوک اور انہیں رسوا کرنے کے لیے 'دوسروں' سے نفرت کا بیانیہ استعمال کیا گیا جس کا نتیجہ اخراج، بدنامی، تفریق، علیحدگی، نفرت پر مبنی جرائم اور سنگین ترین صورتوں میں ظالمانہ جرائم بشمول نسل کشی کی صورت میں نکلا۔''

روانڈا میں 1994 میں لی گئی یہ تصویر ایک چودہ سالہ بچے کی ہے جو نسل کُشی کا کارروائیوں کے دوران لاشوں کے نیچے چھپ کر جان بچانے میں کامیاب رہا۔
UNICEF/UNI55086/Press
روانڈا میں 1994 میں لی گئی یہ تصویر ایک چودہ سالہ بچے کی ہے جو نسل کُشی کا کارروائیوں کے دوران لاشوں کے نیچے چھپ کر جان بچانے میں کامیاب رہا۔

نفرت کے خلاف 'گیم پلان'

نیویارک میں ہونے والی اس تقریب میں کھیلوں کے ذریعے نفرت پر مبنی اظہار پر قابو پانے کا عملی منصوبہ بھی شروع کیا گیا۔

'گیم پلان' کے نام سے معروف یہ منصوبہ خصوصی مشیر اور امریکہ و دیگر ممالک سے کھیلوں کے بڑے مقابلوں کے نمائندوں پر مشتمل ورکنگ گروپ کی دو سالہ مشاورتوں کا نتیجہ ہے۔

اس اقدام کا آغاز اکتوبر 2018 میں ٹری آف لائف سائناگاگ پر حملے کے بعد امریکہ کے شہر پِٹس برو میں مقامی رہنماؤں کی جانب سے 'نفرت کے خاتمے کے لیے عالمی کانفرنس' سے ہوا تھا۔ یہ ملکی تاریخ میں مہلک ترین یہود مخالف حملہ تھا۔

اقوام متحدہ کی کانفرنس کے کھیلوں سے متعلق ورکنگ گروپ کی معاون چیئرپرسن اور پِٹس برو سٹیلرز فٹ بال ٹیم کے شعبہ کمیونٹی افیئرز کی سابق سربراہ مشیل روزینتھل کے دو بھائی بھی اس حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر سابا کوروشی نے بھی اس تقریب سے خطاب کیا اور بتایا کہ کیسے کھیلیں دنیا کو بہتر بنانے میں مدد دے سکتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ''کھیلوں میں ہر شخص سرحدوں، ثقافتوں اور مذاہب سے ماورا ایک ہی زبان بولتا ہے۔ کھیلیں ایک دوسرے کے بارے میں سمجھ بوجھ کا احساس اور تنوع سے آگاہی پیدا کر سکتی ہیں اور ان کے ذریعے دقیانوسی تصورات ار نفرت پر مبنی اظہار سے نمٹا جا سکتا ہے۔''