انسانی کہانیاں عالمی تناظر

تتسی نسل کُشی: ’روانڈا میں جو ہوا وہ کہیں بھی ہو سکتا ہے‘

سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش، جنرل اسمبلی کے صدر سابا کوروشی، اور دوسرے شرکاء نے تتسی نسل کشی کے متاثرین کی یاد میں شمعیں روشن کیں۔
UN Photo/Loey Felipe
سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش، جنرل اسمبلی کے صدر سابا کوروشی، اور دوسرے شرکاء نے تتسی نسل کشی کے متاثرین کی یاد میں شمعیں روشن کیں۔

تتسی نسل کُشی: ’روانڈا میں جو ہوا وہ کہیں بھی ہو سکتا ہے‘

انسانی حقوق

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ نفرت پر مبنی اظہار خطرے کی گھنٹی ہے، یہ جتنی بلند آواز میں بجے گی نسل کشی کا خطرہ بھی اتنا ہی بڑا ہو گا۔

جنرل اسمبلی کی جانب سے 1994 میں روانڈا میں تتسی النسل لوگوں کے خلاف نسل کشی کی المناک یاد میں منائے جانے والے عالمی دن کے موقع پر انہوں نے کہا کہ ''ہم باہم مل کر ان دس لاکھ سے زیادہ بچوں، خواتین اور مردوں کا غم منا رہے ہیں جو 29 سال پہلے 100 روزہ دہشت کی نذر ہو گئے تھے۔''

Tweet URL

ہم اس قتل عام میں بچ رہنے والے متاثرین کی ہمت کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ ہمیں اندمال، بحالی اور مفاہمت کی جانب روانڈا کے لوگوں کے سفر کا اعتراف ہے۔ ہمیں ان واقعات کو روکنے میں عالمی برادری کی ناکامی شرمندگی سے یاد ہے۔ یہ سننے اور عمل کرنے کی ناکامی تھی۔''

اپریل 1994 میں دہائیوں پر مشتمل بین النسلی کشیدگی اور لڑائیاں نسل کشی کی صورت میں دنیا کی نگاہوں کے سامنے آئیں جب ہوتو رہنماؤں کی قیادت میں تتسی النسل لوگوں کے خلاف قتل عام کی خوفناک مہم شروع کی گئی۔

روانڈا میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن اور نسل کشی کے خلاف جنرل اسمبلی کی جانب سے 1948 میں متفقہ طور پر مںظور کردہ معاہدے کی موجودگی کے باوجود خونریزی جاری رہی۔ اس معاہدے میں نسل کشی کو عالمی قانون کے تحت جرم قرار دیا گیا ہے۔

انتونیو گوتیرش نے کہا کہ ''ہلاکتیں اچانک شروع نہیں ہوئی تھیں۔ ان کی باقاعدہ اور پیشگی منصوبہ بندی کی گئی تھی اور ان کا ارتکاب دانستہ اور منظم طریقے سے ہوا۔ یہ دن دیہاڑے سوچا سمجھا قتل عام تھا۔''

ان کا کہنا تھا کہ ''اس قتل عام کو ایک نسل کا عرصہ گزرنے کے بعد ہمیں تمام معاشروں میں شائستگی کی کمزور صورتحال سے صرف نظر نہیں کرنا چاہیے۔ یہ حالات تشدد کے پیش رو ہوتے ہیں اور اسے فروغ دیتے ہیں۔''

نفرت کا بلند آہنگ اظہار

انہوں ںے کہا کہ ''روانڈا میں نسل کشی کی راہ ہموار کرنے والی نفرت اور پروپیگنڈے کو ٹی وی پر نشر کیا گیا، اخباروں میں شائع کیا گیا اور اس کا ریڈیو پر زور وشور سے اظہار ہوا۔

آج نفرت پر مبنی آوازیں پہلے سے کہیں زیادہ بلند ہیں۔ انٹرنیٹ پر تشدد کی ترغیب دی جا رہی ہے، مکروہ جھوٹ بولے جا رہے ہیں، سازشی نظریات پھیلائے جار ہے ہیں، نسل کشی کی موجودگی سے انکار کیا جا رہا ہے، حقائق کو توڑا موڑا جا رہا ہے اور بلاروک و ٹوک دوسروں کو برا بھلا کہنے کا عمل جاری ہے۔''

انہوں نے ڈیجیٹل دنیا میں نفرت کے اظہار کے خلاف مضبوط حفاظتی اقدامات، واضح ذمہ داریوں اور بہتر شفافیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ نفرت پر مبنی اظہار کے خلاف اقوام متحدہ کی حکمت عملی اور منصوبہ عمل ممالک کو اس لعنت سے نمٹنے اور اظہار اور رائے کی آزادی کے احترام کی حمایت میں ایک فریم ورک مہیا کرتے ہیں۔

سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ''آج میں تمام رکن ممالک سے کہتا ہوں کہ وہ نسل کشی کے جرم کی روک تھام اور اس کے مرتکبین کو سزا دینے سے متعلق کنونشن کے بلا تاخیر فریق بنیں اور میں تمام ممالک سے کہتا ہوں کہ وہ اس معاملے میں اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنائیں۔

آئیے باہم مل کر بڑھتی ہوئی عدم رواداری کے خلاف مضبوطی سے کھڑے ہوں۔ آئیے روانڈا کے ان تمام لوگوں کی یاد کو سچے دل سے خراج عقیدت پیش کریں جو سبھی کے لیے وقار، سلامتی، انصاف اور انسانی حقوق پر مبنی مستقبل کی تعمیر کی خاطر اپنی جانوں سے گزر گئے۔'' 

روانڈا کا قتل عام 'اتفاقیہ' نہیں تھا

جنرل اسمبلی کے صدر سابا کوروشی نے کہا کہ یہ قتل عام اتفاقیہ نہیں تھا بلکہ اس کی بنیاد سالہا سال تک ایک نسل پرستانہ نظریے کی آبیاری اور آبادی کے ایک حصے کی منظم تباہی کی مہم شروع کرنے سے ہوئی۔ یہ سب کچھ ہوا اور دنیا خاموش تھی۔

انہوں نے کہا کہ ''نسل کشی کی تیاری سے متعلق متواتر اور واضح انتباہ کے باوجود ہم خاموش تھے۔ ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ ایسی بے ضمیر بے عملی دوبارہ نہیں ہو گی۔''

ان کا کہنا تھا کہ روانڈا کے لوگوں ںے اپنی قوت اور عزم کی بدولت اپنے ملک کو تباہی کی راکھ سے دوبارہ تعمیر کیا۔ آج اس جدوجہد کی کامیابی ہر جگہ دیکھی جا سکتی ہے۔ انہوں نے روانڈا کی پارلیمان کے ایوان زیریں میں صںفی مساوات، اختراع، اس کی معیشت کے استحکام اور طبی نظام کی مضبوطی کا تذکرہ کیا۔

جنرل اسمبلی کے صدر نے کہا کہ ''سب سے اہم بات یہ ہے کہ روانڈا نے اپنے نوجوانوں کے لیے کام کیا ہے اور 20 سال سے کم عمر افراد کے لیے مواقع پیدا کیے ہیں جو اس کی متحرک آبادی کے نصف حصے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ روانڈا نے ایک ایسی قوم تعمیر کی ہے جو ایک بہتر مستقبل کی جانب دیکھتی ہے۔ خدا کرے کہ جنرل اسمبلی میں موجود ہم تمام لوگ بھی یہی کچھ کریں۔''