انسانی کہانیاں عالمی تناظر

عالمگیر مسائل پر قابو پانے کے لیے خواتین کے قائدانہ کردار پر نیا پلیٹ فارم

خواتین سربراہانِ مملکت اور حکومت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موجودہ صدر اور ان کے پیش رو کے ساتھ خواتین رہنماؤں کے پلیٹ فارم کے قیام کے موقع پر
UN Photo/Mark Garten
خواتین سربراہانِ مملکت اور حکومت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موجودہ صدر اور ان کے پیش رو کے ساتھ خواتین رہنماؤں کے پلیٹ فارم کے قیام کے موقع پر

عالمگیر مسائل پر قابو پانے کے لیے خواتین کے قائدانہ کردار پر نیا پلیٹ فارم

خواتین

نیویارک میں جمعرات کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی (یو این جی اے)کے موقع پر خواتین سربراہان ریاست و حکومت کے اجلاس میں واضح کیا گیا کہ خواتین کی مکمل اور مؤثر شرکت اور فیصلہ سازی عالمگیر ترجیحات سے نمٹنے کے لیے کیوں اہم ہے۔

خواتین رہنماؤں سے متعلق یو این جی اے کے نو تشکیل شدہ پلیٹ فارم کے زیراہتمام ایک اجلاس کا انعقاد کیا گیا جس میں خواتین رہنماؤں کی جانب سے دور حاضر کے باہم مربوط مسائل کے انقلاب پذیر حل' کے موضوع کے تحت عالمی امور اور مسائل پر بات چیت ہوئی۔

اس اجلاس میں ہنگری کی صدر کیٹالین نووک، بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد، آئس لینڈ کی وزیراعظم کیٹرین جیکبزڈوٹر، سیموا کی وزیراعظم فائم ناؤم ماٹافا، یوگنڈا کی وزیراعظم روبینہ نابانجا، اروبا کی وزیراعظم ایولین ویور۔کروئس، سینٹ مارٹن کی وزیراعظم سلویرا ای جیکبز اور نیوزی لینڈ کی سابق وزیراعظم ہیلن کلارک نے شرکت کی۔

'مثبت تبدیلی'

کووڈ۔19 وباء، موسمیاتی ہنگامی حالات اور جنگوں جیسے حالیہ عالمگیر بحرانوں نے ثابت کیا ہے کہ انتظامی عہدوں، پارلیمان اور سرکاری انتظامیہ میں خواتین کی قیادت اور فیصلہ سازی کی بدولت مثبت تبدیلی آ سکتی ہے۔

مثال کے طور پر اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) اور اقوام متحدہ میں خواتین کے ادارے یواین ویمن کی جاری کردہ معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسی حکومتوں نے، جن کی پارلیمان میں خواتین کی بھرپور نمائندگی ہے، وباء کے خلاف بہت بڑی تعداد میں ایسے اقدامات کیے جن میں صنفی حساسیت کو مدنظر رکھا گیا تھا۔ ان میں خواتین کے معاشی تحفظ کے لیے بنائی جانے والی پالیسیاں بھی شامل ہیں۔

منگل کو ہونے والے اس اجلاس کا انعقاد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر کے دفتر اور یو این ویمن کی جانب سے کیا گیا تھا جس میں خواتین عالمی رہنماؤں کی کونسل (سی ڈبلیو ڈبلیو ایل) کا تعاون بھی شامل تھا۔

تبدیلی لانے والی قیادت

جنرل اسمبلی کے صدر سابا کوروشی نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت میں زیادہ سے زیادہ خواتین کو شامل کیا جانا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ''خواتین کی قیادت تبدیلی لاتی ہے۔ آج ہمارے ساتھ موجود خواتین رہنماء اس حقیقت کا زندہ ثبوت ہیں۔''

''معاشرے کے تمام طبقات کی نمائندگی پر مشتمل حکمرانی ایسی پالیسیوں کو جنم دیتی ہے جو طویل مدتی مثبت تبدیلی لاتی ہیں۔ حکومتیں متنوع خواتین خصوصاً اعلیٰ عہدوں پر فائز عورتوں کے خیالات کو یکجا کر کے انتہائی ضرورت مند لوگوں کے مسائل کو موثر انداز میں حل کر سکتی ہیں۔''

اقوام متحدہ کی نائب سیکرٹری جنرل امینہ محمد (بائیں جانب) خشک سالی سے متاثرہ سومالی علاقائی ریاست کے دورے کے دوران ایتھوپیا کی صدر صالح ورک زیوادے کے ساتھ
UNECA/Daniel Getachaw
اقوام متحدہ کی نائب سیکرٹری جنرل امینہ محمد (بائیں جانب) خشک سالی سے متاثرہ سومالی علاقائی ریاست کے دورے کے دوران ایتھوپیا کی صدر صالح ورک زیوادے کے ساتھ

منزل ابھی دور ہے

اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے صرف 28 ایسے ہیں جہاں خواتین ریاست یا حکومت کی منتخب سربراہ کے طور پر کام کر رہی ہیں۔

سیاسی شعبے میں دیگر سطحوں پر خواتین کے تناسب کی بات ہو تو ابھی بہت طویل سفر طے کرنا باقی ہے۔

دنیا بھر کے ممالک میں وزرا کی مجموعی تعداد کا 21 فیصد خواتین ہیں، قومی پارلیمان میں ان کی مجموعی تعداد 26 فیصد ہے اور مقامی حکومتوں میں 34 فیصد عہدے خواتین کے پاس ہیں۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ اس حوالے سے پیش رفت کی موجودہ رفتار سے پارلیمان میں خواتین کی نمائندگی کے حوالے سے طے کیے جانے والے اہداف 2062 تک حاصل نہیں ہو پائیں گے۔

اس حوالے سے، یو این ویمن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیما باہوس خواتین رہنماؤں کے اس نئے پلیٹ فارم کا مستقبل میں بھرپور کردار دیکھتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ''جب زیادہ سے زیادہ عورتیں سیاسی و عوامی زندگی میں قائدانہ کردار ادا کرتی ہیں تو اس سے ہر ایک کو اور خاص طور پر بحرانی کیفیات میں فائدہ ہوتا ہے۔''

انہوں ںے کہا کہ ''لڑکیوں کی نئی نسل کو اپنا اچھا مستقبل ممکن دکھائی دیتا ہے۔ صحت، تعلیم، بچوں کی نگہداشت اور خواتین کے خلاف تشدد کے مسائل پر پہلے سے زیادہ توجہ دی جا رہی ہے اور ان کے بہتر حل سامنے آ رہے ہیں۔ ہمیں خواتین رہنماؤں سے حاصل ہونے والے فوائد میں اضافے کے ہرممکن طریقے ڈھونڈنا ہوں گے۔ یہ پلیٹ فارم اسی مقصد کے حصول کا موقع ہے۔''

'ہمیں اِسی وقت عملی قدم اٹھانا ہے'

یو این جی اے میں خواتین رہنماؤں کے عالمی پلیٹ فارم کا آغاز ستمبر 2021 میں خواتین سربراہان ریاست و حکومت اور عبداللہ شاہد کے مابین ملاقات سے ہوا تھا جو اس وقت جنرل اسمبلی کے صدر تھے۔

عبداللہ شاہد نے اعدادوشمار پیش کرتے ہوئے آج کے اجلاس کی اہمیت واضح کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ''ہم اس وقت جس رفتار سے پیش رفت کر رہے ہیں اس پر ہمیں صنفی مساوات کے حصول میں 300 سال درکار ہوں گے۔ ہمیں اسی وقت عملی اقدامات کرنا ہیں۔ ہمیں لڑکیوں اور خواتین کے لیے اقدامات کی رفتار کو بڑھانا ہے۔ ہمیں خواتین کو بااختیار بنانے کی کوششوں میں اضافہ کرنا ہے۔ ہمیں لڑکیوں کے لیے مواقع بڑھانا ہیں۔ ہمیں صنفی بنیاد پر تشدد کو ختم کرنا ہے۔''

مزید خواتین، مزید تنوع

اس اجلاس کے منتظمین کے مطابق یو این جی اے میں دنیا کی خواتین رہنماؤں کا پلیٹ فارم اہم سیاسی عہدوں پر خواتین کی تعداد میں بھی نمایاں اضافہ کرے گا۔

پائیدار ترقی کا عمل آگے بڑھانے میں خواتین کے قائدانہ کردار کی اہمیت ثابت ہے۔

جن ممالک میں خواتین سیاسی رہنماؤں کی تعداد زیادہ ہے وہ صحت، تعلیم، بنیادی ڈھانچے اور خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے جیسے امور پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔

وباءکے خلاف اقدامات میں خواتین رہنماؤں نے ایسی پالیسیوں کی وکالت کی جن سے انتہائی غیرمحفوظ سماجی گروہوں پر اس کے سماجی و معاشی اثرات سے نمٹنے میں مدد ملی۔

نمائندگی کے معاملات

اعدادوشمار سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جنگ کے اثرات کے تناظر میں دیکھا جائے تو عوامی زندگی میں خواتین کی نمائندگی امن عمل اور مذاکرات کی ساکھ میں اضافہ کرتی ہے اور منقسم معاشروں کو متحد ہونے میں مدد دیتی ہے۔

مزید برآں، تحقیق سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جتنی زیادہ تعداد میں خواتین بااختیار ہوتی ہیں، لڑکیوں کی اپنی تعلیم اور کیریئر کے حوالے سے تمنائیں بھی اتنی ہی بڑھ جاتی ہیں۔

آئس لینڈ کی وزیراعظم اور 'سی ڈبلیو ڈبلیو ایل' کی صدر جیکبز ڈوٹر کا کہنا ہے کہ ''میں اس بات پر پورا یقین رکھتی ہوں کہ دنیا کو مزید خواتین رہنماؤں اور مزید متنوع رہنماؤں کی ضرورت ہے جو ہر طرح کے پس منظر اور تجرباتِ زندگی کے حامل ہوں۔''

انہوں نے کہا کہ ''رہنما ہمارے معاشروں میں تمام لوگوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ یہ فیصلے ان لوگوں کو کرنا چاہئیں جو اس بات کا حقیقی اور گہرا ادراک رکھتے ہوں کہ بیشتر لوگ کیسے حالات میں جیتے ہیں، ان کے خدشات کیا ہیں اور اس طرح وہ ان کی ضروریات کا احساس رکھتے ہیں۔''