انسانی کہانیاں عالمی تناظر

حیاتیاتی ہتھیاروں سے تحفظ کے لیے عالمی معاہدہ ضروری

تخفیف اسلحہ کے امور پر اقوام متحدہ کی انڈر سیکرٹری جنرل اِنزومی ناکامِتسو حیاتیاتی ہتھیاروں کی روک تھام سے متعلق کنونشن سے خطاب کر رہی ہیں۔
UN Photo/Violaine Martin
تخفیف اسلحہ کے امور پر اقوام متحدہ کی انڈر سیکرٹری جنرل اِنزومی ناکامِتسو حیاتیاتی ہتھیاروں کی روک تھام سے متعلق کنونشن سے خطاب کر رہی ہیں۔

حیاتیاتی ہتھیاروں سے تحفظ کے لیے عالمی معاہدہ ضروری

امن اور سلامتی

تخفیفِ اسلحہ کے بارے میں اقوام متحدہ کی اعلیٰ سطحی عہدیدار نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ حیاتیاتی ہتھیاروں کی تیاری روکنے کے منصوبوں پر کام کو آگے بڑھایا جائے جن پر پیش رفت کووڈ۔19 کے باعث معطل رہی ہے۔

حیاتیاتی ہتھیاروں کی روک تھام سے متعلق کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے تخفیف اسلحہ کے امور پر اقوام متحدہ کی انڈر سیکرٹری جنرل اِنزومی ناکامِتسو نے واضح کیا کہ حیاتیاتی زہر کی تیاری کی تصدیق کا معاملہ گزشتہ 20 برس سے تعطل کا شکار ہے۔

Tweet URL

ان کا کہنا تھا کہ ''حالیہ وباء میں ناصرف حیاتیاتی تحفظ اور سلامتی کے معاملے کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہو گئی ہے بلکہ یہ بھی سامنے آیا ہے کہ اگر حیاتیاتی عامل جنگ یا دہشت گردی کے لیے جان بوجھ کر استعمال کیے جائیں تو ان سے کس قدر انتشار پھیل سکتا ہے۔''

حیاتیاتی تحفظ مقدم ہے

حیاتیاتی ہتھیاروں سے متعلق کنونشن کا جائزہ اجلاس ہر پانچ سال کے بعد منعقد ہوتا ہے جو کووڈ۔19 کے باعث اس مرتبہ ایک سال کی تاخیر سے ہو رہا ہے۔تین ہفتوں پر مشتمل اس اجلاس میں دنیا بھر کے نمائندے شریک ہیں جن سے خطاب کرتے ہوئے ناکامِتسو کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں ''سیاسی اعتبار سے ایک قابل قبول تصدیقی معاہدے پر پہنچنے کے لیے جدید سائنس کے ذرائع'' بروئے کار لانے کی غرض سے جدید طریقے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ''اس کنونشن کو مضبوط بنانے کے لیے ہر موضوع پر بات ہونی چاہیے۔'' اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے زور دیا کہ اچھے مقاصد کے حصول کے لیے تمام ممالک پُرامن سائنسی اشتراک، تحقیقی شفافیت میں اضافے اور نئی ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے تعاون کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ ''اسی وجہ سے جائزہ کانفرنس رکن ممالک کے لیے اکٹھے ہو کر اس ضروری کنونشن کو مضبوط بنانے کا ایک اہم موقع مہیا کرتی ہے۔''

اتفاق رائے کے امکانات

اگرچہ اس بات کا امکان کم دکھائی دیتا ہے کہ جنیوا میں ہونے والے اس اجلاس میں آئندہ ہفتوں کے دوران رکن ممالک اس کنونشن پر بات چیت دوبارہ شروع کرنے کے حوالے سے اتفاق رائے پر پہنچ جائیں گے جس کے ضابطوں پر عملدرآمد کے لیے وہ قانونی طور پر پابند ہیں، تاہم اس نوویں جائزہ کانفرنس کے اٹلی سے تعلق رکھنے والے نامزد صدر لیونارڈو بینسینی نے کہا ہے کہ ''تصدیق اور تعمیل کے معاملے پر بات چیت دوبارہ شروع کرنے کے لائحہ عمل'' پر کوئی سمجھوتہ ضرور ہو سکتا ہے۔

حیاتیاتی ہتھیار اور خدشات

سفیر بینسینی نے مزید واضح کیا کہ جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے معاملے سے برعکس ''بظاہر ایسی ہزاروں تنصیبات اور جگہیں ہیں جہاں سے حیاتیاتی ہتھیار استعمال کیے جا سکتے ہیں۔''

انہوں ںے بتایا کہ اس خدشے کی روک تھام کے لیے بعض رکن ممالک ''کنونشن کے دائرے میں کام کرنے والے سائنس دانوں کے لیے ایک کھلا اور شفاف ضابطہ کار'' بنانے پر زور دے رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ''اس طرح سبھی کے لیے اپنے دوسرے ساتھیوں کے علم میں لائے بغیر حیاتیاتی ہتھیاروں کے پروگرام تیار کرنا مزید مشکل ہو جائے گا۔''

''ہمیں ایسی چیز کی ضرورت ہے جس کا تعلق صرف سائنس دانوں کے اخلاقی عہد، مخصوص طرزعمل اور سائنسی برادری کے مابین معلومات کے تبادلے سے ہی نہیں بلکہ ہمیں ایسی چیز بھی درکار ہے جس پر قومی سطح پر عملدرآمد کیا جا سکتا ہو۔''

کرونا وائرس کا عنصر

سفیر بینسینی نے بتایا کہ کووڈ۔19 وبا نے حیاتیاتی ہتھیاروں سے متعلق کنونشن کو وقت کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے اور انسانوں، جانوروں اور کرہ ارض کی زندگی کے لیے عالمگیر وبا جیسے خطرے کو مدنظر رکھنے کی ضرورت بھی واضح کر دی ہے۔

1972 میں طے پانے والا حیاتیاتی ہتھیاروں سے متعلق کنونشن حیاتیاتی جنگ کے خطرے پر قابو پانے کے لیے بنیادی بین الاقوامی فریم ورک ہے۔ یہ حیاتیاتی اور زہریلے ہتھیاروں کی تیاری، پیداوار، ان کے حصول، منتقلی، انہیں ذخیرہ کرنے اور استعمال کرنے کی ممانعت کرتا ہے۔ فی الوقت دنیا بھر کے 184 ممالک اس بین الاقوامی معاہدے کے فریق ہیں۔

ناکامِتسو کا کہنا تھا کہ ''دنیا بھر میں تناؤ کی بڑھتی ہوئی صورتحال ارضی سیاسی بحرانوں کو ہوا دے رہی ہے جس سے تحفیف اسلحہ کے کثیرفریقی طریقہ ہائے کار پر بے حد دباؤ ہے۔ ایسے طریقوں پر پیش رفت یا تو تھم گئی ہے یا اسے روک دیا گیا ہے۔ ہم نے اس سے پہلے ممنوع قرار دیے جانے والے ہتھیاروں سے متعلق ضابطوں کو حالیہ برسوں میں ختم ہوتے دیکھا ہے اور ان حالات میں ہمیں بدستور چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ ''