انسانی کہانیاں عالمی تناظر

ایچ آئی وی پر قابو پانے میں حالیہ جمود سے ستائیس لاکھ نوجوان متاثر: یونیسف

یوگنڈا میں ایک ہیلتھ سنٹر جہاں ماؤں کو ایچ آئی وی سے فری بچوں کی پیدائش کی تربیت دی جاتی ہے۔
© UNICEF
یوگنڈا میں ایک ہیلتھ سنٹر جہاں ماؤں کو ایچ آئی وی سے فری بچوں کی پیدائش کی تربیت دی جاتی ہے۔

ایچ آئی وی پر قابو پانے میں حالیہ جمود سے ستائیس لاکھ نوجوان متاثر: یونیسف

صحت

بچوں میں ایچ آئی وی اور ایڈز سے متعلق یونیسف کے تازہ ترین مختصر عالمگیر جائزے کے مطابق 2021 میں تقریباً 110,000 بچے اور 19 سال تک عمر کے نوجوان ایڈز سے متعلق وجوہات کی بنا پر موت کا شکار ہوئے۔

یونیسف کے مطابق اسی دوران مزید 310,000 بچے بھی اس بیماری کا نشانہ بنے اور اس طرح ایچ آئی وی سے متاثرہ نوعمر افراد کی مجموعی تعداد 2.7 ملین رہی۔

Tweet URL

ایڈز کے عالمی دن سے قبل یونیسف نے خبردار کیا ہے کہ گزشتہ تین سال میں بچوں، نوعمر افراد اور حاملہ خواتین میں ایچ آئی وی کی روک تھام اور علاج سے متعلق پیش رفت میں تقریباً کوئی بہتری نہیں آئی اور بہت سے علاقوں میں اس بیماری کی روک تھام اور علاج معالجے کی صورتحال کووڈ۔19 سے پہلے کی سطح سے بھی پست رہی جبکہ ایچ آئی وی/ایڈز کا شکار بچوں اور بالغوں کے مابین علاج معالجے کے حوالے سے موجودہ اور بڑھتا ہوئے فرق اس کے علاوہ ہے۔

جمود کا شکار

ایچ آئی وی/ایڈز کے بارے میں یونیسف کی ایسوسی ایٹ سربراہ انوریتا بینز نے کہا ہے کہ ''اگرچہ طویل عرصہ سے بچوں میں ایڈز پر قابو پانے صورت حال بڑوں جتنی بہتر نہیں رہی تاہم گزشتہ تین سال میں اس حوالے سے پیش رفت میں سامنے آنے والے جمود کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی جس کے باعث بڑی تعداد میں بچے بیماری اور موت کے خطرے سے دوچار ہیں۔

''ایچ آئی وی/ایڈز پر قابو پانے کے معاملے میں بچے بری طرح نظرانداز ہو رہے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ان کی نشاندہی، معائنے اور ان کی زندگی بچانے میں مددگار علاج مہیا کرنے میں مجموعی طور پر ناکام ہیں۔ پیش رفت کے بغیر ہر گزرتے دن 300 سے زیادہ بچے اور نوعمر افراد ایڈز کے خلاف جنگ ہار رہے ہیں۔''

اگرچہ ایچ آئی وی کا شکار تمام لوگوں میں بچوں کی تعداد صرف 7 فیصد ہے لیکن 2021 میں دنیا بھر میں ایڈز سے ہونے والی 17 فیصد اموات بچوں کی تھیں اور اس بیماری کے نئے مریضوں میں ان کی تعداد 21 فیصد رہی۔ یونیسف نے خبردار کیا ہے کہ اس معاملے میں عدم مساوات کے محرکات سے نمٹے بغیر بچوں اور نوعمر افراد میں ایڈز کے خاتمے کا خواب تشنہء تعبیر رہے گا۔

مثبت اعشاریے

اس مختصر جائزے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بچوں میں ایچ آئی وی/ایڈز کے علاج معالجے کے حوالے سے طویل مدتی رحجانات مثبت ہیں۔ 2010 سے 2021 کے درمیانی عرصہ میں ایچ آئی وی کے نئے مریضوں میں 14 سال تک عمر کے بچوں کی تعداد میں 52 فیصد کمی دیکھی گئی جبکہ نئے مریضوں میں 15 سے 19 سال کے نوعمر افراد کی تعداد میں 40 فیصد کمی واقع ہوئی۔ اسی طرح اس ایک دہائی میں تاحیات اینٹی ریٹرووائرل علاج (اے آر ٹی) کی سہولت پانے والی ایچ آئی وی کا شکار حاملہ خواتین کی تعداد 46 فیصد سے بڑھ کر 81 فیصد تک جا پہنچی۔

عدم مساوات

اگرچہ ایچ آئی وی کا شکار بچوں کی مجموعی تعداد میں کمی آ رہی ہے تاہم بچوں اور بالغوں میں اس بیماری کے علاج کے حوالے سے پایا جانے والا فرق بدستور بڑھ رہا ہے۔ یونیسف نے ایچ آئی وی کے حوالے سے جن ممالک کو خاص توجہ کے متقاضی قرار دیا ہے ان میں اے آر ٹی علاج کی سہولت پانے والے بچوں کی تعداد 2020 میں 56 فیصد تھی جو 2021 میں کم ہو کر 54 فیصد پر آ گئی۔

کووڈ۔19 وبا اور دیگر عالمگیر بحرانوں سمیت اس کمی کی بہت سی وجوہات ہیں جنہوں ںے پسماندگی اور غربت میں اضافہ کیا ہے تاہم یہ صورتحال بچوں میں ایڈز کے علاج کے حوالے سے کمزور ہوتے سیاسی عزم اور ردعمل کی عکاسی بھی کرتی ہے۔ دنیا بھر میں ایچ آئی وی کا شکار ایسے بچوں کی تعداد اور بھی کم (52 فیصد) ہے جنہیں علاج تک رسائی میسر ہے اور اس میں گزشتہ چند برس کے دوران معمولی سا ہی اضافہ ہوا ہے۔

ایک بیس سال حاملہ خاتون، جسے پیدائش ہی سے ایچ آئی وی کا مرض لاحق تھا، اپنی دوائی کے ساتھ جس سے یہ مرض ماں سے بچے کو منتقل ہونا روکا جا سکتا ہے۔
© UNICEF/UN0640796/Dejongh
ایک بیس سال حاملہ خاتون، جسے پیدائش ہی سے ایچ آئی وی کا مرض لاحق تھا، اپنی دوائی کے ساتھ جس سے یہ مرض ماں سے بچے کو منتقل ہونا روکا جا سکتا ہے۔

دریں اثنا، اس عرصہ میں ایچ آئی وی کے علاج تک رسائی رکھنے والے تمام بالغوں (76 فیصد) کی تعداد میں بچوں کے مقابلے میں 20 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ بچوں اور ایچ آئی وی کے علاج تک رسائی رکھنے والی حاملہ خواتین (81 فیصد) میں یہ فرق اور بھی زیادہ تھا۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ ایچ آئی وی کا شکار اور اے آر ٹی سے محروم چار سال سے کم عمر بچوں کی تعداد گزشتہ سات برس میں مسلسل بڑھتی رہی ہے جو 2021 میں 72 فیصد تک پہنچ گئی جو کہ 2012 کی شرح کے برابر ہے۔

ماتثرہ خطے

ایشیا پیسفک، غرب الہند، مشرقی اور جنوبی افریقہ، لاطینی امریکہ، مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ اور مغربی و وسطی افریقہ میں بھی 2020 کے دوران حاملہ اور دودھ پلانے والی ایسی خواتین کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا جنہیں ایچ آئی وی علاج میسر نہیں ہے۔

2021 میں ایشیا پیسفک، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں ایسی خواتین کی تعداد مزید بڑھ گئی۔ مغربی اور وسطی افریقہ کےعلاوہ، جہاں ماں سے بچے کو ایچ آئی وی کی منتقلی سب سے زیادہ ہے، باقی کسی خطے میں اس بیماری کے علاج تک رسائی پانے والوں کی شرح 2019 کی سطح پر واپس نہیں آئی۔ اس سے نومولود بچوں کی زندگی کو لاحق خطرات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ حاملہ خواتین کی بڑی تعداد میں اس بیماری کی تشخیص اور علاج نہ ہونے کے باعث 2021 میں ایچ آئی وی کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد 75,000 سے زیادہ تھی۔

بینز کا کہنا ہے کہ ''انتہائی غیرمحفوظ لوگوں تک رسائی کے لیے نئے سیاسی عزم، تزویراتی شراکت اور اس بیماری سے نمٹنے کے پروگراموں میں اضافے کے لیے وسائل کی فراہمی کی بدولت ہم بچوں، نوعمر افراد اور حاملہ خواتین میں ایڈز پر قابو پا سکتے ہیں۔''