انسانی کہانیاں عالمی تناظر

کاپ27: اقوام متحدہ کی سال کی سب سے بڑی موسمیاتی کانفرنس کے بارے میں جاننے کی ضروری باتیں

مصر کے شہر شرم الشیخ میں پہاڑوں کے پیچھے غروب ہوتے سورج کا منظر۔
Unsplash/Juanma Clemente-Alloza
مصر کے شہر شرم الشیخ میں پہاڑوں کے پیچھے غروب ہوتے سورج کا منظر۔

کاپ27: اقوام متحدہ کی سال کی سب سے بڑی موسمیاتی کانفرنس کے بارے میں جاننے کی ضروری باتیں

موسم اور ماحول

اقوام متحدہ کی سالانہ موسمیاتی کانفرنس مصر کے ساحلی شہر شرم الشیخ میں منعقد ہو رہی ہے۔ اس کا انعقاد ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب پوری دنیا کو غیرمعمولی موسمی حالات کا سامنا ہے، یوکرین میں جنگ کے نتیجے میں توانائی کا بحران جنم لے رہا ہے اور سائنسی اعدادوشمار سے واضح ہے کہ دنیا کاربن کے اخراج پر قابو پانے اور زمین کے مستقبل کو تحفظ دینے کے لیے خاطرخواہ اقدامات نہیں کر رہی۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ کاپ27 (COP27) میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق مسائل سے نمٹنے کے ایسے طریقوں پر فوری ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے جو اس مسئلے کے حجم سے مطابقت رکھتے ہوں، تو کیا عالمی رہنما ایسا کر پائیں گے؟

مندوبین گلاسگو میں کاپ26 میں شریک ہیں۔
UNFCCC/Kiara Worth
مندوبین گلاسگو میں کاپ26 میں شریک ہیں۔

کاپ کیا ہیں؟

کاپ دنیا میں موسمیاتی امور سے متعلق سب سے بڑی اور اہم ترین سالانہ کانفرنسیں ہیں۔

1992 میں اقوام متحدہ نے برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں 'ارضی کانفرنس' کا انعقاد کیا تھا جس میں موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن (یو این ایف سی سی سی) کی منظوری دی گئی اور اس حوالے سے رابطہ دفتر قائم کیا گیا جسے اب ہم 'یو این کلائمیٹ چینج سیکرٹریٹ' کے نام سے جانتے ہیں۔

اس معاہدے میں ممالک نے اتفاق کیا کہ وہ ''موسمیاتی نظام میں انسانی سرگرمی کے ذریعے ہونے والی خطرناک مداخلت کو روکنے کے لیے فضا میں گرین ہاؤس گیسوں کے ارتکاز کو معتدل رکھیں گے۔'' اب تک 197 فریقین اس پر دستخط کر چکے ہیں۔

1994 میں یہ معاہدہ طے پانے کے بعد اقوام متحدہ ہر سال موسمیاتی امور پر عالمی کانفرنسیں منعقد کرتا ہے جن میں دنیا کے تقریباً تمام ممالک شریک ہوتے ہیں۔ ان کانفرنسوں کو ''کاپ'' کہا جاتا ہے جو کہ 'کانفرنس آف پارٹیز' کا مخفف ہے۔

اب تک ہونے والے ان اجلاسوں میں دنیا بھر کے ممالک نے بنیادی معاہدے میں بہت سے اضافوں پر بات چیت کی ہے تاکہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو قانونی طور پر روکا جا سکے۔ 1997 میں طے پانے والا کیوٹو پروٹوکول اور 2015 کا پیرس معاہدہ اس کی نمایاں مثالیں ہیں جن میں دنیا کے تمام ممالک نے عالمی حدت کو قبل از صنعتی دور کے زمینی درجہ حرارت کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ 1.5 ڈگری سیلسیئس کی حد میں رکھنے کی کوشش کرنے اور ایسا ممکن بنانے نیز موسمیاتی تبدیلی کے خلاف مالی وسائل مہیا کرنے کی کوششوں میں اضافے پر اتفاق کیا تھا۔

اِس سال ایسی 27ویں سالانہ کانفرنس منعقد ہو رہی ہے اسی لیے اسے کاپ 27 کا نام دیا گیا ہے۔

مظاہرین گلاسگو میں کاپ26 کے دوران احتجاج کر رہے ہیں۔
UN News/Laura Quiñones
مظاہرین گلاسگو میں کاپ26 کے دوران احتجاج کر رہے ہیں۔

کاپ 27 دیگر سی او پی سے کیسے مختلف ہے؟

پیرس معاہدے سے پانچ سال کے بعد گزشتہ برس ہونے والی کاپ 26 (کووڈ وباء کے باعث ایک سال کو نہیں شمار نہیں کیا گیا) کا اختتام 'گلاسگو کلائمیٹ پیکٹ' پر ہوا۔ جیسا کہ اس وقت برطانوی صدارت میں کہا گیا 'یہ پیکٹ یا معاہدہ عالمی حدت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیئس کی حد میں رکھنے کے ہدف کو برقرار رکھتا ہے لیکن اس ہدف کے حصول کی جانب سفر سست رہے گا'۔

پیرس معاہدے کو پوری طرح فعال کرنے کے لیے اس میں اضافے کیے گئے جس کے لیے اس کے عملی نفاذ سے متعلق تفصیلات کو حتمی شکل دی گئی جنہیں 'پیرس رول بُک' بھی کہا جاتا ہے۔

کاپ 26 میں ممالک نے 2022 کے لیے مضبوط وعدے کرنے پر اتفاق کیا جن میں مزید پُرعزم اہداف کے حامل نئے قومی منصوبے بھی شامل ہیں۔ تاہم 193 میں سے صرف 23 ممالک نے ہی اب تک اقوام متحدہ کو اپنے منصوبے جمع کروائے ہیں۔

گلاسگو میں دیگر اقدامات کے علاوہ نیٹ زیرو ہدف کے حصول، جنگلات کے تحفظ اور موسمیاتی تبدیلی کے خلاف مالی وسائل کی فراہمی کی غرض سے مذاکرات کے دوران اور ان سے ہٹ کر بھی بہت سے وعدے کیے گئے۔

کانفرنس کی صدارت کی جانب سے مستقبل کے لائحہ عمل سے متعلق جاری کردہ بیان کے مطابق کاپ 27 کا مقصد مذاکرات اور ''عملدرآمدی منصوبہ بندی'' سے ان تمام وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کی جانب منتقلی ہو گا۔

مصر نے اس حوالے سے مکمل، بروقت، جامع اور خاطرخواہ عملی اقدامات کے لیے کہا ہے۔

ماہرین کے مطابق آئندہ کانفرنس میں پیرس رول بُک پر عملدرآمد کے طریقہ کار کا جائزہ لینے کے علاوہ چند ایسے نکات پر بات چیت بھی ہوگی جو گلاسگو کانفرنس کے بعد بھی نتیجہ خیز نہیں ہو سکے تھے۔

ان امور میں 'نقصان اور ازالے'کے لیے مالی وسائل کی فراہمی بھی شامل ہے جس کا مقصد بحران سے براہ راست متاثر ہونے والے ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کے ایسے اثرات سے نمٹنے میں مدد دینا ہے جنہیں جھیلنے کی وہ صلاحیت نہیں رکھتے۔ اس کے علاوہ ان نکات میں ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے کم آمدنی والے ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے میں مدد دینے کے لیے ہر سال 100 بلین ڈالر دینے کے وعدے کی تکمیل بھی شامل ہے۔

ان مذاکرات میں تکنیکی امور پر بات چیت بھی شامل ہو گی جیسا کہ ایسے طریقے کا تعین کرنا جس کے ذریعے ممالک عملی طور پر جانچ سکیں کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں ان کا حصہ کتنا ہے۔ اس طرح موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے اقدامات کو تمام ممالک کے لیے منصفانہ بنایا جا سکے گا۔

یہ تمام بات چیت 2023 میں ہونے والی کاپ 28 میں پہلے عالمی جائزے کی راہ ہموار کرے گی جس میں گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج محدود رکھنے، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کی اہلیت پیدا کرنے اور پیرس معاہدے پر عملدرامد کے ذرائع کے حوالے سے مجموی عالمی پیش رفت کو دیکھا جائے گا۔

معدنی ایندھن سے چلنے والے بجلی گھر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔
© Unsplash/Ella Ivanescu
معدنی ایندھن سے چلنے والے بجلی گھر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔

لہٰذا، اس مرتبہ بڑے مقاصد کیا ہیں؟

1۔ تخفیف: رکن ممالک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کیسے کمی لا رہے ہیں؟

موسمیاتی تبدیلی میں تخفیف ایسی کوششوں کا نام ہے جو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے یا اسے روکنے کے لیے کی جاتی ہیں۔ موسمیاتی حوالے سے تخفیف کا مطلب نئی ٹیکنالوجی اور قابل تجدید توانائی کے ذرائع سے کام لینا، پرانے آلات کو بہتر بنا کر توانائی کی بچت کرنا یا انتظامی طریقہ ہائے کار اور صارفین کے طرزعمل میں تبدیلی لانا بھی ہو سکتا ہے۔

ممالک سے توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ گلاسگو معاہدے میں کیے جانے والے مطالبے پر عملدرآمد، اپنے موسمیاتی منصوبوں کے جائزے اور تخفیف سے متعلق عملی پروگرام کی تخلیق کے لیے کی جانے والی منصوبہ بندی کو سامنے لائیں۔

اس کا مطلب 2030 تک گرین ہاؤس ہاؤس گیسوں کے اخراج سے متعلق مزید پُرعزم اہداف پیش کرنا ہے کیونکہ اقوام متحدہ میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ادارے نے کہا ہے کہ موجودہ منصوبے تباہ کن حدت سے بچنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔

ہیٹی کے شمال میں کھیت مزدور زمین کو کٹاؤ سے بچانے کے اقدامات کر رہے ہیں۔
© WFP Haiti/Theresa Piorr
ہیٹی کے شمال میں کھیت مزدور زمین کو کٹاؤ سے بچانے کے اقدامات کر رہے ہیں۔

2۔ مطابقت پذیری: ممالک موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے کیسے مطابقت پیدا کر رہے ہیں اور اس کے لیے دوسروں کی کیسے مدد کر رہے ہیں؟

موسمیاتی تبدیلی سر پر ہے۔ گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج روکنے اور عالمی حدت میں اضافے کی رفتار کم کرنے کے لیے کیے جانے والے ہر اقدام کے علاوہ ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے مطابقت بھی پیدا کرنا ہو گی تاکہ وہ اپنے شہریوں کو تحفظ دے سکیں۔

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات جگہوں کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب مزید آگ، سیلاب، قحط، شدید گرمی یا سردی اور سطح سمندر میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔

کاپ 26 میں مندوبین نے پیرس معاہدے میں مطابقت پذیری کے حوالے سے عالمی ہدف کو حاصل کرنے کے لیے ایک عملی پروگرام کی منظوری دی تھی۔

یہ منصوبہ معاشروں اور ممالک کو ایسا علم اور ذرائع مہیا کرنے کے لیے شروع کیا گیا جن کے ذریعے یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے جو اقدامات کر رہے ہیں وہ دنیا کو موسمیاتی اعتبار سے مزید بہتر مستقبل کی جانب لے جا رہے ہیں۔

کاپ 27 کی صدارت ممالک سے یہ توقع رکھتی ہے کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے مقابل خود کو مزید مضبوط بنانے اور غیرمحفوظ ترین معاشروں کی مدد کرنے کے لیے اپنی پیش رفت کو موثر طور سے جاری رکھیں گے اور اس کا تخمینہ لگائیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ممالک اپنے موسمیاتی منصوبوں میں مطابقت پذیری کے حوالے سے مزید تفصیلی اور پرعزم وعدے کریں گے۔

گزشتہ برس ترقی یافتہ ممالک نے کم آمدنی والے ممالک کو مطابقت پذیری کے لیے دیے جانے والے مالی وسائل کو دوگنا بڑھانے پر اتفاق کیا تھا اور بہت سے فریقین اس میں مزید کئی درجے اضافہ کرنے کو کہہ رہے ہیں تاکہ پیرس معاہدے کے مطابق اسے تخفیف پر خرچ ہونے والے مالی وسائل کے برابر لایا جا سکے۔ یقیناً یہ شرم الشیخ میں بات چیت کا اہم موضوع ہو گا۔

'یو این ایف سی سی سی' واضح طور پر سمجھتا ہے کہ موسمیاتی حوالے سے موجودہ اور مستقبل کے خطرات سے نمٹنے کے لیے سرکاری و نجی تمام ذرائع سے مطابقت پذیری کی مد میں دیے جانے والے مالی وسائل کا حجم بڑھنا ضروری ہے۔ اس معاملے میں حکومتوں، مالیاتی اداروں اور نجی شعبے سمیت تمام فریقین کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

ترقی یافتہ ممالک نے موسمیاتی تبدیلیوں سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے ہر سال 100 بلین ڈالر مختص کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
Unsplash/Jason Leung
ترقی یافتہ ممالک نے موسمیاتی تبدیلیوں سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے ہر سال 100 بلین ڈالر مختص کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

3۔ موسمیاتی مالیات: مسئلہ برقرار ہے

موسمیاتی مالیات کاپ 27 میں بھی بات چیت کا اہم موضوع ہو گا۔ موسمیاتی تبدیلی کے خلاف مالی وسائل مہیا کرنے کے حوالے سے بہت سی بات چیت پہلے ہی ایجنڈے کا حصہ ہے اور ترقی پذیر ممالک ترقی یافتہ ممالک سے پُرزور مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ ان کے لیے خاطرخواہ اور مناسب مالی مدد یقینی بنائیں۔ ان میں خاص طور پر ایسے ممالک شامل ہیں جو موسمیاتی تبدیلی کے سامنے انتہائی غیرمحفوظ ہیں۔

اس موقع پر غالباً ہم ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے سالانہ 100 بلین ڈالر مہیا کرنے کے وعدے کے بارے میں بہت کچھ سنیں گے جو تاحال پورا نہیں ہوا۔  2009 میں کوپن ہیگن میں امیر ممالک نے کم آمدنی والے ممالک کو سالانہ بنیادوں پر یہ رقم دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ہدف پورا نہیں ہو سکا۔ ماہرین کو توقع ہے کہ کاپ 27 میں بالاآخر 2023 میں اس وعدے کو حقیقت کا روپ مل جائے گا۔

کاپ 27 کی مصری صدارت اس وعدے اور گزشتہ تمام کاپ میں کیے گئے عزائم اور وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

پاکستان میں چار سالہ رحیم سیلاب میں تباہ ہو جانے والے اپنے گھر کے ملبے کا پاس کھڑا ہے۔
© UNICEF/Asad Zaidi
پاکستان میں چار سالہ رحیم سیلاب میں تباہ ہو جانے والے اپنے گھر کے ملبے کا پاس کھڑا ہے۔

'نقصان اور ازالے' کا اس قدر تذکرہ کیوں؟

استوائی طوفانوں، ہریالی کے خاتمے اور سطح سمندر میں اضافے جیسے شدید موسمی واقعات کے نتیجے میں رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلی سے ممالک کو بہت زیادہ نقصان پہنچتا ہے۔

چونکہ ان ''قدرتی آفات'' میں شدت گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں اضافے کے نتیجے میں آتی ہے جس کے زیادہ تر ذمہ دار ترقی یافتہ ممالک ہیں، اسی لیے اس تبدیلی سے بری طرح متاثر ہونے والے ترقی پذیر ممالک کا استدلال ہے کہ انہیں اس نقصان کا معاوضہ ملنا چاہیے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے گزشتہ اعلیٰ سطحی ہفتے میں ڈنمارک یہ اعلان کرنے والا پہلا ملک تھا کہ وہ ایسے ترقی پذیر ممالک کو 13 ملین ڈالر دے گا جو موسمیاتی تبدیلی سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

ان ادائیگیوں کے معاملے کو ''نقصان اور ازالہ'' کا نام دیا جاتا ہے اور ممکنہ طور پر یہ کاپ 27 میں بات چیت کا اہم ترین موضوع ہو گا حالانکہ اسے تاحال باقاعدہ طور پر ایجنڈے کا حصہ نہیں بنایا گیا۔

گروپ آف 77 (جس میں تمام ترقی پذیر ممالک شامل ہیں) اور چین نے اسے ایجنڈے میں شامل کرنے کی بات کی ہے جس کے لیے گفت و شنید کے پہلے روز تمام ممالک کا اتفاق رائے درکار ہو گا۔

اب تک 'نقصان اور ازالے' کا فنڈ قائم کرنے پر بات چیت ہوتی رہی ہے لیکن اس کا کوئی ٹھوس نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ انسانی حقوق اور موسمیاتی امور پر اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے ایان فرے جیسے ماہرین کو امید ہے کہ اس معاملے میں پیش رفت کی رفتار تیز ہو جائے گی اور یہ مقصد حاصل کر لیا جائے گا۔

ان کا کہنا ہے کہ ''بعض بڑے ترقی یافتہ ممالک کو اس پر واقعتاً تشویش ہے اور وہ اس مسئلے کو آلودگی پھیلانے والے ممالک کی ذمہ داری کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ اس وقت موسمیاتی تبدیلی سے بری طرح متاثر ہونے والے اور اس کی قیمت چکانے والے ممالک کو اس تبدیلی سے ہونے والا نقصان خود بھگتنا پڑ رہا ہے۔''

یو این نیوز کو ایک حالیہ انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ''لہٰذا اب وقت آ گیا ہے کہ گرین ہاؤس گیسیں خارج کرنے والے بڑے ممالک سامنے آئیں اور کہیں کہ ''ہمیں کچھ کرنا ہے، ہمیں غیرمحفوظ ممالک کو تحفظ دینے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔''

تھائی لینڈ میں ایک مکینک شمسی توانائی کے ایک پینل کی دیکھ بھال کرتے ہوئے۔
© ADB
تھائی لینڈ میں ایک مکینک شمسی توانائی کے ایک پینل کی دیکھ بھال کرتے ہوئے۔

موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے میں یوکرین کی جنگ کا کیا کردار ہے؟

اقوام متحدہ میں پالاؤ کی مستقل نمائندہ اور موسمیاتی امور پر مذاکرات کار الانہ سید کے مطابق حالیہ سماجی سیاسی منظرنامے اور توانائی کے بحران کے ہوتے ہوئے حالیہ سی او پی کی کارروائی میں ''تذبذب'' نمایاں رہے گا۔

انہوں ںے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ''یوکرین میں جنگ جاری ہے اس لیے بہت سے ممالک نے جن بہت سی چیزوں پر اتفاق کیا تھا وہ اب نہیں ہو پائیں گی۔ جنگ کے نتیجے میں منظرنامہ تبدیل ہو چکا ہے۔''

درحقیقت یوکرین پر روس کے حملے سے دنیا بھر  میں مہنگائی بڑھی ہے اور توانائی، خوراک اور تجارتی اشیا کی ترسیل کا بحران پیدا ہوا ہے۔ جرمنی جیسے ممالک مختصر مدت کے لیے اپنے موسمیاتی اہداف سے پیچھے ہٹ گئے ہیں جبکہ گلاسگو میں اعلان کردہ اپنی نوعیت کا پہلا چین۔امریکہ کلائمیٹ ورکنگ گروپ اب معطل ہو چکا ہے۔

کاپ 27 میں ممکنہ طور پر ایسے وعدوں اور عزائم کی تکمیل کی راہ میں رکاوٹ دکھائی دے گی جو بعض ممالک نے گزشتہ برس کیے تھے۔

تاہم خصوصی نمائندے ایان فرائی کی رائے میں یہ جنگ ممالک کو توانائی کے شعبے میں خودانحصاری کے حصول کے لیے جھنجھوڑ بھی سکتی ہے۔

ان کا استدلال ہے کہ قابل تجدید توانائی اس مقصد کے حصول کا سستا ترین راستہ ہے اور گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے اور اس کا خاتمہ کرنے میں اس کا بنیادی کردار ہے۔

انہوں نے یو این نیوز کو بتایا کہ ''ہم دیکھ رہے ہیں کہ پرتگال قابل تجدید توانائی پر 100 فیصد اںحصار کی جانب بڑھ رہا ہے اور ڈنمارک بھی یہی کچھ کر رہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس سے دوسرے ممالک کو بھی قابل تجدید توانائی اپنانے اور توانائی کے شعبے میں خود کفیل ہونے کی تحریک ملے گی۔''

گلاسگو میں ہونے والی کاپ26 کے دوران نوجوان مظاہرین احتجاج کرتے ہوئے۔
UN News/Laura Quiñones
گلاسگو میں ہونے والی کاپ26 کے دوران نوجوان مظاہرین احتجاج کرتے ہوئے۔

کیا سول سوسائٹی بھی کاپ میں شرکت کرے گیا یا صرف مندوبین شریک ہوں گے؟

اس کانفرنس کا مرکزی اجلاس 6 تا 18 نومبر شرم الشیخ انٹرنیشنل کنونشن سنٹر میں منعقد ہو گا۔

اب تک حکومتوں، کاروباروں، این جی اوز اور سول سوسائٹی کی نمائندگی کرنے والے 30 ہزار سے زیادہ لوگوں نے اس میں شرکت کے لیے اپنے نام لکھوائے ہیں۔

'یو این ایف سی سی سی' معاہدے کے 197 فریقین کو اکٹھے بات چیت کے لیے عموماً گروہوں یا 'بلاکس' میں تقسیم کیا جاتا ہے جن میں جی77 اور چین، افریقہ گروپ، کم ترین ترقی یافتہ ممالک، امبریلا فورم، چھوٹے جزائر پر مشتمل ترقی پذیر ممالک اور لاطینی امریکہ اور غرب الہند کا آزاد اتحاد جیسے بلاک شامل ہیں۔

اس موقع پر ہونے والی بات چیت میں مشاہدہ کار بھی شامل ہوتے ہیں جن کا اگرچہ گفت و شنید میں کوئی رسمی کردار نہیں ہوتا لیکن وہ اس میں مداخلت کر سکتے ہیں اور شفافیت برقرار رکھنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ مشاہدہ کاروں میں اقوام متحدہ کے ادارے، بین الحکومتی ادارے، این جی اوز، مذہبی گروہ اور صحافی شامل ہیں۔

کانفرنس میں ہونے والی باقاعدہ بات چیت کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں دیگر پروگرام بھی ہوں گے جنہیں موضوعاتی اعتبار سے مختلف ایام میں منعقد کرایا جائے گا۔

اس سال کے موضوعات میں مالیات، سائنس، نوجوان اور آئندہ نسلیں، ازالہ کاربن، مطابقت پذیری اور زراعت، صنف، پانی، اے سی ای اور سول سوسائٹی، توانائی، حیاتی تنوع اور مسائل کا حل (اس سی او پی میں نیا موضوع) شامل ہیں۔

حسب معمول یہ کانفرنس دو حصوں میں منعقد ہو گی جنہیں بلیو زون اور گرین زون کا نام دیا گیا ہے اور اس سال یہ ایک دوسرے مقابل واقع ہیں۔

بلیو زون اقوام متحدہ کے زیرانتظام جگہ ہے جہاں ممالک کے مابین بات چیت اور مذاکرات ہوں گے اور اس میں داخلے کے خواہش مند ہر شخص کے پاس 'یو این ایف سی سی سی' کا جاری کردہ اجازت نامہ ہونا چاہیے۔

اِس سال بلیو زون میں 156 پویلین بنائے جائیں گے جو کہ گلاسگو سے دو گنا زیادہ تعداد ہے۔ یہ پویلین اقوام متحدہ کے بہت سے اداروں، دنیا بھر کے ممالک اور خطوں کی نمائندگی کریں گے جبکہ پہلی مرتبہ نوجوانوں اور زرعی خوراک کے پویلین بھی بنائے گئے ہیں۔

گرین زون کا انتظام مصر کی حکومت کے ہاتھ میں ہو گا اور اس میں وہ تمام عام لوگ آ سکیں گے جنہوں ںے اس کانفرنس میں شرکت کے لیے اپنا نام لکھوا رکھا ہے۔ اس حصے میں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے اقدامات پر بات چیت، آگاہی، تعلیم اور وعدوں کے بارے میں اجلاس، نمائشوں، ورکشاپوں اور بات چیت کا انعقاد ہو گا۔

کانفرنس کی صدارت کے مطابق گرین زون ایک ایسا پلیٹ فارم ہو گا جہاں دنیا بھر سے کاروباری طبقہ، نوجوان، سول سوسائٹی اور مقامی لوگ، ماہرین علم، فنکار اور فیشن کے شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنی آرا کا اظہار کر سکیں گے اور ان کی بات سنی جائے گی۔

اِس سال گرین زون میں ایک خصوصی "احتجاجی زون'' اور بہت بڑا بیرون خانہ لاؤنج اور ٹیرس بھی ہو گا۔

معاملہ کار گلاسگو میں ہونے والی کاپ26 کے اختتام پر اکٹھے ہیں۔ کانفرنس میں ماحولیاتی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے نئے ولولے پر زور دیا گیا تھا۔
UN News/Laura Quiñones
معاملہ کار گلاسگو میں ہونے والی کاپ26 کے اختتام پر اکٹھے ہیں۔ کانفرنس میں ماحولیاتی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے نئے ولولے پر زور دیا گیا تھا۔

گھر بیٹھے اس کانفرنس میں ہونے والی بات چیت اور اجلاسوں کی تفصیلات کیسے جانی جا سکتی ہیں؟

اس مقصد کے لیے: