انسانی کہانیاں عالمی تناظر

موسمیاتی تبدیلی: ڈبلیو ایم او کا ماحول دوست توانائی کی جانب منتقلی کے لیے فوری اقدامات پر زور

منگولیا کے علاقے اُلنباتر میں فضائی آلودگی کا ایک منظر
© UNICEF/Tamir Bayarsaikhan
منگولیا کے علاقے اُلنباتر میں فضائی آلودگی کا ایک منظر

موسمیاتی تبدیلی: ڈبلیو ایم او کا ماحول دوست توانائی کی جانب منتقلی کے لیے فوری اقدامات پر زور

موسم اور ماحول

اقوام متحدہ کے موسمیاتی ادارے نے منگل کو دنیا بھر کی حکومتوں سے ہنگامی اپیل کی ہے کہ وہ شمسی، ہوائی اور پن بجلی جیسی توانائی کی ماحول دوست اقسام کی جانب منتقل ہوں۔

عالمی موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ عالمی حدت میں اضافے سے توانائی کا تحفظ کمزور پڑ رہا ہے اور اس حدت کو محدود رکھنے کے لیے ماحول دوست ذرائع سے حاصل کردہ توانائی کی مقدار میں آئندہ آٹھ برس کے دوران دو گنا اضافہ کرنا ہو گا۔

دنیا بھر میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں توانائی کے شعبے کا حصہ 75 فیصد ہے اور ڈبلیو ایم او کے سربراہ پیٹیری ٹالس کا کہنا ہے کہ اگر ہم 21ویں صدی میں ترقی چاہتے ہیں تو ماحول دوست توانائی پیدا کرنے کی جانب منتقلی اور توانائی کی استعداد کو بہتر بنانا ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ 2050 تک زمینی ماحول میں گرین ہاؤس گیسوں کو نیٹ زیرو سطح پر لانا ہمارا مقصد ہے۔ لیکن ہم آئندہ آٹھ برس میں ماحول دوست بجلی کی ترسیل میں دو گنا اضافہ کر کے ہی اس ہدف تک پہنچ سکتے ہیں''۔

Tweet URL

وقت سے مقابلہ

26 مختلف ماحولیاتی تنظیموں کے جائزوں پر مشتمل 2022 کی سٹیٹ آف کلائمیٹ سروسز رپورٹ میں ماحول دوست توانائی کے موضوع پر خاص توجہ مرکوز کی گئی ہے کہ اس شعبے کو پائیدار ترقی، موسمیاتی تبدیلی اور زمین کی صحت کے بارے میں بین الاقوامی معاہدوں کے اہداف حاصل کرنے میں اہم عنصر کی حیثیت حاصل ہے۔

توانائی کے بنیادی ڈھانچے کی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کو مضبوط بنانے اور گزشتہ دہائی میں 30 فیصد تک پہنچ جانے والی ماحول دوست توانائی کی مسلسل بڑھتی طلب کو پورا کرنے کے لیے قابل اعتبار موسم، پانی اور موسمیاتی حوالے سے اطلاعات اور خدمات تک رسائی کی اہمیت میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔

ڈبلیو ایم او کے سربراہ نے ''توانائی کے عالمگیر نظام میں مکمل تبدیلی'' لانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ''ہمارے پاس وقت نہیں ہے اور ہمارا موسم ہمارے سامنے تبدیل ہو رہا ہے۔''

توانائی کا تحفظ

موسمیاتی تبدیلی ایندھن کی ترسیل، توانائی کی پیداوار اور توانائی کے موجودہ اور آئندہ ڈھانچے کی مادی مضبوطی پر براہ راست اثرانداز ہوتی ہے۔

شدید گرمی کے ادوار اور قحط نے توانائی کے موجودہ پیداواری نظام کو پہلے ہی دباؤ میں لے رکھا ہے جس کے نتیجے میں معدنی ایندھن کے استعمال کے نتیجے میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو محدود کرنا اور پہلے سے زیادہ متواتر اور شدید موسم اور آبی و موسمیاتی شدت کے واقعات کے اثرات کو سامنے لانا زیادہ اہم ہو گیا ہے۔

موسمیاتی اثرات کے ساتھ موافقت کو فروغ دینے کے اقدامات

ان تمام خدشات کے باوجود دنیا بھر کی حکومتوں کی جانب سے موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن (یو این ایف سی سی سی) کو جمع کرائے گئے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے 40 فیصد سے کچھ زیادہ منصوبوں میں ہی توانائی کے شعبے کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے موافق بنانے کو ترجیح دی گئی ہے اور دنیا بھر میں اس شعبے پر کی جانے والی سرمایہ کاری بھی اتنی ہی کم ہے۔

قابل تجدید توانائی کی جانب منتقلی سے پانی کی فراہمی پر بڑھتا ہوا دباؤ کم کرنے میں مدد ملے گی کیونکہ بجلی پیدا کرنے کے روایتی پلانٹ، معدنی ایندھن یا جوہری ذرائع کے مقابلے میں شمسی اور ہوائی توانائی کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے لیے پانی کی بہت کم مقدار استعمال ہوتی ہے۔

لیکن ڈبلیو ایم او کا کہنا ہے کہ قابل تجدید توانائی کی جانب منتقلی کے لیے ممالک کے موجودہ وعدے 2030 تک سستی، قابل اعتبار، پائیدار اور جدید توانائی تک دنیا بھر کی رسائی ممکن بنانے کے ہدف تک پہنچنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔

پانی کی کمیابی

2020 میں دنیا کی 87 فیصد بجلی تھرمل، جوہری اور آبی نظام سے پیدا کی گئی تھی جس کا براہ راست انحصار پانی کی دستیابی پر ہوتا ہے۔

مشینری کو ٹھنڈا کرنے کے لیے تازہ پانی پر انحصار کرنے والے 33 فیصد تھرمل پاور پلانٹ، تقریباً 11 فیصد پن بجلی گھر اور اندازاً 26 فیصد پن بجلی ڈیم ایسے علاقوں میں واقع ہیں جہاں پانی کی کمیابی کا مسئلہ بہت شدید ہے۔

جوہری توانائی پیدا کرنے والے پلانٹ کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے پانی کی ضرورت ہوتی ہے اور ایسے بیشتر پلانٹ بھی سطح سمندر سے بہت نیچے ساحلی علاقوں میں واقع ہیں۔ اس طرح نہیں سطح سمندر میں اضافے اور موسمی شدت کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے بھی خطرہ رہتا ہے۔

قابل تجدید توانائی پر سرمایہ کاری

رپورٹ کے اختتام پر کہا گیا ہے کہ دنیا کو  2050 تک گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج نیٹ زیرو سطح پر لانے کی راہ پر ڈالنے کے لیے اُس وقت تک قابل تجدید توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کو تین گنا بڑھانا ہو گا۔

تاہم ترقی پذیر ممالک کو ماحول دوست توانائی کے حصول میں معاونت دینے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی مدد میں الٹا کمی آئی ہے۔

2019 کے اواخر میں مسلسل دوسرے سال اس میں 10.9 بلین ڈالر کمی ہوئی جو کہ 2018 میں اس مقصد کے لیے مہیا کردہ 14.2 بلین ڈالر سے 23 فیصد کم اور 2017 میں دیے جانے والے 24.7 بلین ڈالر سے نصف ہے۔

افریقہ پر توجہ

افریقہ پہلے ہی موسمیاتی تبدیلی کے سنگین اثرات کا سامنا کر رہا ہے جن میں بڑے پیمانے پر قحط بھی شامل ہیں۔ ڈبلیو ایم او کا کہنا ہے کہ اس براعظم کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے ہم آہنگی پیدا کرنے کے علاوہ توانائی اور موسمیات کے حوالے سے اپنے اہداف کے حصول کے لیے موجودہ دہائی میں ماحول دوست توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کو دو گنا بڑھانا ہو گا۔

رپورٹ کے مطابق اب اس مقصد کے سالانہ 25 بلین ڈالر درکار ہیں جو کہ دنیا بھر میں قابل تجدید توانائی کے شعبے میں مجموعی سرمایہ کاری کا ایک فیصد ہے۔

دنیا بھر میں شمسی توانائی کے حصول کے لیے سازگار ماحول کا تقریباً 60 فیصد افریقہ میں ہے اور افریقہ کے ممالک کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ اس سے فائدہ اٹھائیں اور توانائی کی مستقبل کی منڈی کے اہم کھلاڑی بن جائیں۔

مستقبل پر نظر

توانائی پیدا کرنے کے شعبے میں موسمیاتی حوالے سے پیش کی جانے والی خدمات میں گیس اور بجلی کی توانائی خریدنے کی منصوبہ بندی، ہنگامی اقدامات کا انتظام اور قابل تجدید ذرائع سے بجلی گھروں خصوصاً پانی کے ذخائر اور پن بجلی پیدا کرنے کے نظام کو بہتر بنانا شامل ہو سکتے ہیں۔

جائزوں سے توانائی کے شعبے میں ایندھن کی خریداری کے لیے ہر مختصر مدتی، موسمی اور ذیلی موسمی پیش گوئیوں کی معاشی اہمیت ثابت ہو چکی ہے۔

درجہ حرارت کے بارے میں پیش گوئی کی بدولت مزید درست حساب کتاب کرنے میں مدد ملتی ہے جس سے کم خرچ پر توانائی کی طلب پوری کرنے کے لیے بہترین انداز میں بجلی پیدا کرنا ممکن ہو جاتا ہے۔

بارش اور پانی کے بہاؤ سے متعلق روزانہ، ہفتہ وار اور موسمی پیش گوئیاں پن بجلی پیدا کرنے کے عمل کو بہتر بنانے میں مددگار ہوتی ہیں۔

بوسنیا ہرزگوینا نے ثابت کیا ہے کہ کیسے انتہائی آلودہ شہروں کو بھی منصوبہ بندی کے ساتھ ماحولیاتی اعتبار سے خوشگوار جگہوں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
UNDP/Sulejman Omerbasic
بوسنیا ہرزگوینا نے ثابت کیا ہے کہ کیسے انتہائی آلودہ شہروں کو بھی منصوبہ بندی کے ساتھ ماحولیاتی اعتبار سے خوشگوار جگہوں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔