انسانی کہانیاں عالمی تناظر

روس یوکرین کے نقصانات کی تلافی کرے: جنرل اسمبلی کی قرارداد

یوکرین میں جنگ سے متاثرہ عمارتیں
© UNICEF/Anton Kulakowskiy
یوکرین میں جنگ سے متاثرہ عمارتیں

روس یوکرین کے نقصانات کی تلافی کرے: جنرل اسمبلی کی قرارداد

امن اور سلامتی

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے سوموار کو ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں روس سے کہا گیا ہے کہ وہ جنگ میں یوکرین کو ہونے والے نقصانات کی تلافی کرے۔ ازالہء جنگ کے حوالے سے اس قرارداد کی منظوری رکن ممالک کے سفیروں کے ایک ہنگامی اجلاس میں دی گئی۔ تاہم روس نے اس قرارداد پر کڑی تنقید کی ہے۔

قریباً 50 ممالک کی حمایت سے پیش کی جانے والی اس قرارداد میں جنگ کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کی تلافی اور شہادتوں اور دعووں کو جمع کرنے کے لیے ایک بین الاقوامی طریقہ کار طے کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔

جنرل اسمبلی 193 رکن ممالک پر مشتمل اقوام متحدہ میں دنیا بھر کی نمائندگی کرنے والا سب سے بڑا نمائندہ ادارہ ہے۔

94 ممالک نے اس قرارداد کے حق میں اور 14 نے مخالفت میں ووٹ دیا جبکہ 73 غیرحاضر رہے۔

قرارداد پر رائے شماری صبح کے وقت ہوئی اور ممالک اپنے فیصلوں کی وضاحت کے لیے دوپہر کو واپس آئے۔

روس سے جواب طلبی کی جائے: یوکرین

اقوام متحدہ میں یوکرین کے مستقبل نمائندے سرگئی کیسلٹسیا نے یہ قرارداد پیش کرتے ہوئے اپنے پورے خطاب میں ایک بنیادی تصور کے طور پر بائبل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ''آسمان تلے کچھ بھی نیا نہیں ہے۔''

انہوں ںے زور دیا کہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی پر روس سے جواب طلبی ہونی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ''ستر سال پہلے سوویت یونین نے ازالہء جنگ کا مطالبہ کیا اور اسے وصول کیا تھا اور یہ ادائیگی جنگ اور قبضے سے متاثر ہونے والے ملک کا حق ہے۔''

انہوں نے کہا کہ ''آج روس جو 20 ویں صدی کے استبداد کا جانشین ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، اپنی جنگ اور قبضے کی قیمت چکانے سے بچنے کے لیے ہر قدم اٹھا رہا ہے اور اپنے جرائم پر احتساب سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔

خونریزی اور تلافی

کیسلٹسیا نے کہا کہ روس نے 1991 میں کویت پر عراق کے قبضے کے بعد اقوام متحدہ کے تلافی کمیشن (یو این سی سی) کے قیام کی حمایت بھی کی تھی۔

انہوں ںے بتایا کہ کمیشن نے فروری میں اپنا مینڈیٹ مکمل کیا اور متاثرین کو زرتلافی کے طور پر 52 ارب ڈالر سے زیادہ معاوضے کی ادائیگی کی۔

سفیر نے اپنے ملک پر روس کی جنگ کے اثرات کا خاکہ کھینچا جس میں رہائشی علاقوں اور شہری تنصیبات پر سوچی سمجھی بمباری، بجلی مہیا کرنے کے تقریباً نصف نظام کی تباہی، بڑے پیمانے پر بے گھری اور قتل، جنسی زیادتی، تشدد اور جبری ملک بدری جیسے مظالم شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ''یہ تجویز صرف روس کے حوالے سے نہیں ہے۔ اس سے ان تمام ممالک کو فائدہ پہنچے گا جنہیں آج یا مستقبل میں طاقت کے استعمال سے خطرہ ہو سکتا ہے۔

روس کی قرارداد پر تنقید

رائے شماری سے پہلے روس کے سفیر ویزلے نیبنزیا نے قرارداد کے مسودے کو ممالک کے ایک محدود گروہ کی جانب سے بین الاقوامی قانون کی پیروی کے بجائے غیرقانونی چیز کو جائز قرار دینے کی ایک ''بہترین مثال'' کہا۔

انہوں ںے کہا کہ اس قرارداد کی حمایت کرنے والے ممالک جنرل اسمبلی کو عدالت بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جو کہ وہ نہیں ہے۔

روسی زبان میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ''یہ ممالک خود کو قانون کا پابند قرار دینے کی شیخی بگھارتے ہیں لیکن اس کے ساتھ وہ اس کی بنیادی صورت کا تمسخر بھی اڑا رہے ہیں۔''

اقوام متحدہ کا کوئی کردار نہیں بنتا

نیبنزیا نے کہا کہ زرتلافی کا مجوزہ طریقہ کار ممالک کے ایک گروہ کی جانب سے قائم کیا جائے گا جو یہ فیصلہ کریں گے کہ اس سے کس طرح کام لیا جانا چاہیے۔

انہوں ںے مزید کہا کہ ''اس عمل میں اقوام متحدہ کا کوئی کردار نہیں ہو گا کیونکہ مجوزہ طریقہ کار اقوام متحدہ سے ہٹ کر اختیار کرنے کی تجویز دی گئی ہے اور کسی کا جنرل اسمبلی سے اس کی سرگرمی پر جواب طلبی کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔''

علاوہ ازیں ان کا کہنا تھا ''بلاشبہ'' یہ مالی وسائل روس کے منجمد اثاثوں سے حاصل کیے جائیں گے جن کی مالیت اربوں ڈالر ہے۔

انہوں ںے کہا کہ مغربی ممالک طویل عرصہ سے ان اثاثوں کو غیرمنجمد کرنے کی خواہش رکھتے ہیں اور ان کا مقصد ان وسائل کو ان کے مالک کو لوٹانا یا انہیں یوکرین کی مدد کے لیے خرچ کرنا نہیں بلکہ کیئو کو ہتھیاروں کی مسلسل بڑھتی فراہمی کے لیے مالی وسائل کا اہتمام کرنا اور پہلے سے فراہم کردہ ہتھیاروں پر اٹھنے والے اخراجات کو پورا کرنا ہے۔''

جنرل اسمبلی کا خصوصی ہنگامی اجلاس

جنرل اسمبلی کا خصوصی ہنگامی اجلاس 28 فروری کو یوکرین میں جنگ کے آغاز سے چندہ ہی روز کے بعد شروع ہوا۔

1950 کے بعد یہ اس نوعیت کا 11واں اجلاس ہے جو 'امن کے لیے اتحاد' کے نام سے مشہور قرارداد کی مطابقت سے بلایا گیا۔

قرارداد 377 اے (V) جنرل اسمبلی کو اختیار دیتی ہے کہ جب سلامتی کونسل اپنے پانچ مستقل ارکان یعنی چین، فرانس، برطانیہ، امریکہ اور روس کے مابین عدم اتفاق کے نتیجے میں کوئی ضروری قدم اٹھانے میں ناکام رہے تو وہ عالمی امن اور سلامتی کے معاملات اپنے ہاتھ میں لے سکتی ہے۔ سلامتی کونسل کے مندرجہ بالا پانچوں ارکان ویٹو کا حق رکھتے ہیں۔

حالیہ خصوصی اجلاس سلامتی کونسل کی جانب سے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے حق میں رائے دیے جانے کے بعد بلایا گیا۔ اس سے پہلے یوکرین پر حملے کی مذمت کے لیے سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی قرارداد کو روس نے ویٹو کر دیا تھا۔