انسانی کہانیاں عالمی تناظر

موسمیاتی بحران کی وجہ سے نوجوان طبقہ والدین بننے پر متذبذب: یونیسیف سروے

آئیوری کوسٹ میں یو۔رپورٹ میں حصہ لینے والے نوجوانوں کی ایک ٹولی۔ یو۔رپورٹ یونیسیف کا ایک پلیٹ فارم ہے جو ایس ایم ایس، فیس بک، اور ٹویٹر کے ذریعے مختلف موضوعات پر نوجوانوں سے آراء لیتا ہے۔
A group of young U-reporters in the Ivory Coast. U-Report is a social platform created by UNICEF, available via SMS, Facebook an
آئیوری کوسٹ میں یو۔رپورٹ میں حصہ لینے والے نوجوانوں کی ایک ٹولی۔ یو۔رپورٹ یونیسیف کا ایک پلیٹ فارم ہے جو ایس ایم ایس، فیس بک، اور ٹویٹر کے ذریعے مختلف موضوعات پر نوجوانوں سے آراء لیتا ہے۔

موسمیاتی بحران کی وجہ سے نوجوان طبقہ والدین بننے پر متذبذب: یونیسیف سروے

موسم اور ماحول

موسمیاتی تبدیلی افریقی نوجوانوں کی تقریباً نصف تعداد کو بچے پیدا کرنے کے خیال پر نظرثانی کے لیے مجبور کر رہی ہے جس سے بحران کا شکار دنیا کے مستقبل کے بارے میں ان کی غیریقینی کیفیت واضح ہوتی ہے۔ یہ بات اقوام متحدہ کے بچوں ادارے یونیسف کی جانب سے کرائے گئے ایک عالمی جائزے سے سامنے آئی ہے۔

اس جائزے کے نتائج مصر کے شہر شرم الشیخ میں جاری کاپ 27 موسمیاتی کانفرنس کے موقع پر بدھ کو شائع کیے گئے۔

اس سال جولائی اور اگست میں منعقدہ یونیسف کے یو۔رپورٹ جائزے میں 163 ممالک سے تقریباً 243,512 نوجوانوں نے شرکت کی۔

موسمیاتی تبدیلی اور نوجوانوں کے خدشات

یو۔رپورٹ یونیسف کا ایک ڈیجیٹل پلیٹ فارم ہے جو اس پروگرام کی ترجیحات، ہنگامی اقدامات اور مختلف مقاصد کے لیے عام حمایت حاصل کرنے کی کوششوں میں نوجوانوں کی شمولیت میں مدد دیتا ہے۔

اس جائزے میں نوجوانوں سے موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں ان کے رویے سے متعلق سوالات پوچھے گئے جو انہیں ایس ایم ایس اور فوری پیغام رسانی کی ٹیکنالوجی کے ذریعے بھیجے گئے تھے۔

عالمی سطح پر ہر پانچ میں سے دو افراد نے اپنے جوابات میں بتایا کہ موسمیاتی اثرات کے باعث انہیں بچے پیدا کرنے کی اپنی خواہش پر نظرثانی کرنا پڑ رہی ہے۔

اس حوالے افریقی خطوں میں بہت زیادہ خدشات پائے گئے جہاں قریباً نصف لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ مستقبل میں بچے پیدا کرنے کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہے۔ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں ایسے لوگوں کی تعداد 44 فیصد جبکہ ذیلی صحارا افریقہ میں 43 فیصد تھی۔

سنیں اور عمل کریں

ان دونوں خطوں میں ایسے افراد کی تعداد اس جائزے میں شریک دنیا بھر کے دیگر لوگوں سے کہیں زیادہ تھی جنہوں نے بتایا کہ انہیں موسمیاتی حوالے سے کئی حادثات کا تجربہ ہو چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان حادثات نے خوراک اور پانی تک ان کی رسائی کو متاثر کیا ہے اور ان کے خاندان کی مجموعی آمدنی کم ہو گئی ہے۔

کاپ 27 میں یونیسف کے وفد کی سربراہ پالوما ایسکوڈیرو نے کہا ہے کہ ''ہم اِس وقت موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو محسوس کر رہے ہیں لیکن یہ سیلاب، خشک سالی اور گرمی کی لہروں سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ ان اثرات نے ہمارے امید کے احساس کو بھی لپیٹ میں لے لیا ہے۔''

ان کا کہنا ہے کہ ''خاص طور پر افریقہ میں نوجوان اپنے اور اپنے عزیزوں پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا مشاہدہ کر رہے ہیں اور اس سے ان کے اپنے مستقبل کی بابت منصوبوں میں تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ تاہم ایسا نہیں ہونا۔ کاپ 27 میں دنیا کے رہنماؤں کو نوجوانوں کے ان اندیشوں پر کان دھرنا ہوں گے اور انہیں تحفظ دینے کے لیے فوری قدم اٹھانا ہو گا۔''

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات

طبی جریدے دی لینسیٹ نے گزشتہ برس ایک عالمگیر جائزے کے نتائج شائع کیے تھے جن میں 10,000 میں سے تقریباً 40 فیصد لوگوں نے بتایا کہ وہ بچے پیدا کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔

یہ یونیسف کے جائزے سے ملتی جلتی شرح ہے اور اسے افریقہ میں اس حوالے سے پائے جانے والے احساسات کو سامنے لانے والا پہلا جائزہ سمجھا جاتا ہے۔

یو۔رپورٹ کے دیگر نتائج کے مطابق نصف سے زیادہ لوگوں کا کہنا تھا کہ انہیں خشک سالی یا شدید گرمی کا تجربہ ہو چکا ہے جبکہ ایک چوتھائی نے بتایا کہ وہ سیلاب سے متاثر ہو چکے ہیں۔

ہر پانچ میں سے دو افراد کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث انہیں ضرورت کے مطابق خوراک میسر نہیں ہے اور ان میں سے تقریباً 52 فیصد کا تعلق ذیلی صحارا افریقہ سے تھا۔ اس کے بعد مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کا نمبر آتا ہے جہاں 31 فیصد لوگوں نے خوراک کی قلت کا تذکرہ کیا۔

فرار کی تیاری

یو۔رپورٹ میں رائے دینے والےہر پانچ میں سے ایک فرد خصوصاً مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ اور مشرقی ایشیا اور الکاہل خطے کے لوگوں نے بتایا کہ ان کے لیے صاف پانی کا حصول مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

پانچ میں سے تین افراد کا کہنا تھا کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث کسی دوسرے شہر یا ملک میں متنقل ہونے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ مشرقی وسطیٰ اور شمالی افریقہ سے 70 فیصد لوگوں جبکہ لاطینی امریکہ اور غرب الہند سے 66 فیصد نے اس خواہش کا اظہار کیا۔

یونیسف نے دنیا کے رہنماؤں پر زور دیا ہے کہ وہ بچوں کو موسمیاتی ہنگامی صورتحال میں تحفظ دینے کے لیے فوری قدم اٹھائیں اور اس سلسلے میں ناصرف عالمی حدت میں اضافے کا باعث بننے والی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں تیزی سے کمی لائیں بلکہ ایسی اہم سماجی خدمات کو بھی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے مطابق ڈھالیں جن پر بچوں اور نوجوانوں کا انحصار ہوتا ہے۔

ادارے نے زور دیا کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے مطابقت پیدا کرنے کے اقدامات سے زندگیاں بچانے میں مدد ملے گی۔ سیلاب اور خشک سالی میں برقرار رہنے والے پانی کے نظام اس کی مثال ہیں۔

موسمیاتی مطابقت اور امداد کی فراہمی

گزشتہ برس سکاٹ لینڈ میں کاپ 26 کے موقع پر ترقی یافتہ ممالک نے 2025 تک موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے کے معاملے میں دی جانے والی امداد کو دگنا کرتے ہوئے اس کا حجم 40 ارب ڈالر سالانہ تک بڑھانے پر اتفاق کیا تھا۔

اِس سال انہیں اپنے اس وعدے کی تکمیل کے لیے قابل اعتبار لائحہ عمل پیش کرنا ہو گا تاکہ اس کے ذریعے اس دہائی کے آخر تک موسمیاتی مطابقت پذیری کے لیے دی جانے والی سالانہ امداد کا حجم کم از کم 300 ارب ڈالر تک بڑھایا جا سکے۔

یونیسف نے حکومتوں پر بھی زور دیا کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کے متاثرین کو ان کی مطابقتی صلاحیتوں سے بڑھ کر ہونے والے نقصان کے ازالے میں مدد دیں اور ان ناقابل واپسی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ''مالیاتی کمی'' کو پورا کریں۔

مستقبل داؤ پر

ایسکوڈیرو کا کہنا ہے کہ اگرچہ کاپ 27 میں پالیسی سے متعلق فیصلوں کے حوالے سے بہت سی بات چیت ہو رہی ہے تاہم ''یہاں کچھ اور داؤ پر لگا ہوا ہے۔''

اس جائزے سے واضح ہو جاتا ہےکہ نوجوانوں کا مستقبل غیریقینی ہے خواہ وہ والدین ہوں، خواہ وہ اپنا ملک چھوڑ رہے ہوں، انہیں یہ مسئلہ درپیش ہے کہ وہ خود کو درپیش خطرات کے مقابل اپنی بقا کیسے ممکن بنائیں گے۔''

انہوں ںے کہا کہ ''ان نوجوانوں کی خاطر کاپ 27 میں کامیابی کو طویل مدتی وعدوں پر مبنی مالیاتی مدد سے جانچا جانا چاہیے جس سے مقامی سطح پر لوگوں کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے مطابق پیدا کرنے اور اس بحران سے ہونے والے نقصان کو پورا کرنے کے طریقے وضع کرنے میں مدد مل سکتی ہو۔''