انسانی کہانیاں عالمی تناظر

یو این خصوصی مشیر مشرق وسطیٰ میں لوگوں کے مصائب پر ’دہشت زدہ‘

نسل کشی کی روک تھام پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی خصوصی مشیر ایلس ویریمو ڈیریٹو۔
UN Photo/Manuel Elías
نسل کشی کی روک تھام پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی خصوصی مشیر ایلس ویریمو ڈیریٹو۔

یو این خصوصی مشیر مشرق وسطیٰ میں لوگوں کے مصائب پر ’دہشت زدہ‘

انسانی حقوق

نسل کشی کی روک تھام پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی خصوصی مشیر نے مشرق وسطیٰ کے موجودہ حالات کو ہولناک قرار دیتے ہوئے غزہ میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی اور شہریوں کے تحفظ پر زور دیا ہے۔

خصوصی مشیر ایلس ویریمو ڈیریٹو نے اس بحران کو ختم کرنے کے لیے بھرپور سفارتی کوششوں کے لیے بھی کہا ہے۔ ایک بیان میں ان کا کہنا ہے کہ شہریوں کو ایسی جنگ کی قیمت چکانے پر مجبور نہیں ہونا چاہیے جسے شروع کرنے میں ان کا کوئی کردار نہ ہو۔ ان کے بنیادی قوانین کا تحفظ کیا جانا چاہیے اور ان کی انسانی ضروریات ہر صورت پوری ہونی چاہئیں۔ 

جنگ کے خاتمے کا عزم

گزشتہ بدھ کو غزہ کی جنگ کے چار ماہ مکمل ہو گئے تھے۔ مقامی طبی حکام کے مطابق، اس عرصہ میں 27,840 فلسطینی ہلاک اور 67,300 سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں۔ چار ماہ میں 17 لاکھ سے زیادہ شہری بے گھر ہو گئے ہیں اور علاقے میں مکانات، سکولوں، ہسپتالوں اور دیگر اہم تنصیبات کو بڑے پیمانے پر تباہی کا سامنا ہے۔

خصوصی مشیر نے تمام متعلقہ فریقین سےکہا ہے کہ وہ اس جنگ کو ختم کرنے کا عزم مضبوط بنائیں۔ بین الاقوامی قانون کے تحت شہریوں اور شہری تنصیبات کا تحفظ یقینی بنانا سب سے اہم ہے۔ 

انہوں نے غزہ میں قید تمام یرغمالیوں کی محفوظ رہائی اور 7 اکتوبر کے حملوں اور ان کے بعد جنسی تشدد کے الزامات کی تحقیقات کے لیے بھی کہا ہے۔ 

آئی سی جے کا فیصلہ

خصوصی مشیر نے غزہ میں نسل کشی روکنے کے لیے اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقہ کے مقدمے میں عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) کے احکامات پر عملدرآمد پر بھی زور دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سیکرٹری جنرل اور وہ خود عدالت میں جاری اس مقدمے میں کسی ایک فریق کے طرف دار نہیں ہیں۔ 

26 جنوری کو 'آئی سی جے' نے اسرائیل سے کہا تھا کہ وہ غزہ میں ایسے تمام اقدامات کو روکنے کے لیے ہرممکن اقدامات کرے جن کی انسداد نسل کشی کنونشن کی دفعہ 2 کے تحت ممانعت ہے۔ 

تنازع پھیلنے کا خدشہ

خصوصی مشیر نے غزہ کی جنگ سے مغربی کنارے اور پورے مشرق وسطیٰ پر مرتب ہونے والے اثرات کی بابت تشویش کا اظہار بھی کیا۔ انہوں نےکہا کہ لوگوں کو پرامن طور پر اکٹھے رہنے اور شکایات کے تعمیری و پُرامن ازالے کا موقع دینے کے لیے کوششیں کی جانی چاہئیں۔ 

انہوں نے کہا کہ اشتعال انگیز باتوں، توہین آمیز کلمات اور نفرت پر مبنی اظہار سے تشدد میں مزید اضافہ ہو گا اور تنازع کا خاتمہ کرنے کی گنجائش کم ہو جائے گی۔ سیاسی رہنماؤں کی خاص ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی باتوں سے پرہیز کریں اور تناؤ دور کرنے کے لیے ہرممکن اقدامات اٹھائیں۔