انسانی کہانیاں عالمی تناظر

افغانستان: عالمی ادارہ خوراک بیس لاکھ لوگوں کی امداد میں کمی پر مجبور

جلال آباد میں ایک خاتون عالمی ادارہ خوراک سے اپنے کنبے کے لیے آخری فوڈ پارسل لا رہی ہیں۔
© WFP/Mohammad Hasib Hazinyar
جلال آباد میں ایک خاتون عالمی ادارہ خوراک سے اپنے کنبے کے لیے آخری فوڈ پارسل لا رہی ہیں۔

افغانستان: عالمی ادارہ خوراک بیس لاکھ لوگوں کی امداد میں کمی پر مجبور

انسانی امداد

عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) کو ستمبر میں افغانستان میں مزید دو ملین لوگوں کو دی جانے والی غذائی امداد روکنا پڑ رہی ہے۔ اس طرح رواں سال ملک میں ادارے کی امداد سے محروم ہونے والے لوگوں کی تعداد 10 ملین تک پہنچ جائے گی۔

امدادی مالی وسائل میں بڑے پیمانے پر کمی کے باعث 'ڈبلیو ایف پی' آئندہ ہر ماہ صرف تین ملین لوگوں کو ہی ہنگامی مدد مہیا کر سکے گا۔

Tweet URL

افغانستان کے لیے 'ڈبلیو ایف پی' کی ڈائریکٹر اور نمائندہ شاؤ وی لی نے کہا ہے کہ ملک میں لوگوں کو پہلے ہی تشویش ناک حد تک بھوک اور غذائی قلت کا سامنا ہے اور ان حالات میں ادارے کو آئندہ کھانے کی تلاش میں سرگرداں لاکھوں لوگوں کو چھوڑ کر بھوکے اور فاقہ کش لوگوں میں سے انتخاب پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ باقی ماندہ محدود وسائل میں ادارے کے لیے مکمل محتاجی کے دھانے پر موجود تمام لوگوں کو خدمات مہیا کرنا ممکن نہیں۔

راشن بندی

 مارچ میں 'ڈبلیو ایف پی' کو ہنگامی درجے کی بھوک کا سامنا کرنے والے لوگوں کو دی جانے والی غذائی امداد میں 75 سے 50 فیصد تک کٹوتی پڑی تھی۔

اپریل اور مئی میں اسے 8 ملین لوگوں کے لیے امداد بند کرنا پڑی۔ 'ڈبلیو ایف پی' خواتین کے لیے عموماً آخری سہارا ہوتا ہے جنہیں تیزی سے افغان سماج سے خارج کیا جا رہا ہے اور ان کے لیے زندہ رہنے اور اپنے بچوں کو خوراک مہیا کرنے کے راستے محدود ہوتے جا رہے ہیں۔ 

 امداد میں کٹوتی کا مطلب یہ ہے کہ 1.4 ملین نئی اور متوقع ماؤں اور ان کے بچوں کو غذائی قلت سے بچاؤ کے لیے مخصوص خوراک اب دستیاب نہیں ہو گی۔

'ڈبلیو ایف پی' نے آنے والے مہینوں میں غذائیت کی فراہمی کے مراکز میں داخل کیے جانے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافے کی توقع ظاہر کی ہے کیونکہ بڑی تعداد میں بچے بھوک کا شکار ہو رہے ہیں۔

سنگین صورتحال

 آنے والے چھ مہینوں میں 'ڈبلیو ایف پی' کو 21 ملین لوگوں کی زندگی کے تحفظ اور انہیں غذائیت اور روزگار کے سلسلے میں مدد مہیا کرنے کے لیے ایک بلین ڈالر کی ضرورت ہے۔

اس میں ایسے لوگوں کو پہلے سے تیار کردہ خوراک کی فراہمی کے لیے درکار مالی وسائل بھی شامل ہیں جو افغانستان کی سخت سردی میں دوسرے علاقوں سے کٹ کر رہ جائیں گے۔ 

لی کا کہنا ہے کہ افغانستان میں متوقع تباہی سے بچنے کا محدود موقع اب بھی موجود ہے تاہم وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ اس معاملے میں بے عملی کی قیمت ان خواتین اور بچوں کو چکانا پڑے گی جو 40 سالہ جنگ، لنگڑی لولی معیشت اور بدترین صورت اختیار کرتے موسمیاتی بحران کے نتائج جھیل رہے ہیں۔

ڈبلیو ایف پی کا مالی بحران

یہ اعلان نیویارک میں اقوام متحدہ کی 78ویں جنرل اسمبلی سے پہلے آیا ہے جہاں دنیا کے رہنما ترقی کی راہ میں حائل بھوک سمیت بڑے مسائل پر بات چیت کے لیے جمع ہوں گے۔

دنیا بھر میں امدادی ضروریات تیزی سے بڑھ رہی ہیں اور ایسے میں 'ڈبلیو ایف پی' عطیہ دہندہ حکومتوں پر زور دے رہا ہے کہ وہ امدادی کارروائیوں کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کو اپنی ترجیح بنائیں۔ 

ڈبلیو ایف پی کو شدید مالی بحران کا سامنا ہے جو ادارے کو ایسے وقت میں تحفظِ زندگی کے لیے فراہم کی جانے والی مدد میں کمی لانے پر مجبور کر رہا ہے جب بھوک ریکارڈ سطح پر پہنچ چکی ہے۔

افغانستان کے لیے 'ڈبلیو ایف پی' کی تقریباً ںصف امدادی کارروائیوں کے تحت خوراک، نقد امداد اور غذائیت کی فراہمی میں پہلے ہی کمی لائی جا چکی ہے یا ان میں جلد کمی لانے کا مںصوبہ ہے۔