انسانی کہانیاں عالمی تناظر

افغانستان: فنڈنگ کی کمی، عالمی ادارہ خوراک راشن بندی پر مجبور

مئی میں فصلوں کی آئندہ کٹائی سے پہلے خوراک کے ذخائر ختم ہو چکے ہیں اور یہ افغانستان کے دیہی خاندانوں کے لیے روایتی طور پر سال کا سب سے مشکل وقت ہوتا ہے۔
© UNICEF/Munir Tanweer
مئی میں فصلوں کی آئندہ کٹائی سے پہلے خوراک کے ذخائر ختم ہو چکے ہیں اور یہ افغانستان کے دیہی خاندانوں کے لیے روایتی طور پر سال کا سب سے مشکل وقت ہوتا ہے۔

افغانستان: فنڈنگ کی کمی، عالمی ادارہ خوراک راشن بندی پر مجبور

انسانی امداد

افغانستان میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک نے اعلان کیا ہے کہ مالی وسائل کی قلت کے باعث مارچ میں کم از کم چار ملین لوگوں کے لیے تحفظِ زندگی میں مددگار امداد میں کمی واقع ہو گئی ہے۔

عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) نےملک میں اپنی کارروائیوں کے لیے ہنگامی مدد کی اپیل کی ہے جہاں خاندانوں کو 2021 میں طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد بڑھتی ہوئی بھوک سمیت ایک کے بعد دوسرے بحران کا سامنا ہے۔

Tweet URL

ادارے نے ایک انتباہ میں کہا ہے کہ تباہ کن بھوک افغانستان بھر میں پھیل سکتی ہے اور انسانی امداد برقرار نہ رہی تو مزید لاکھوں لوگوں کو بقا کے لیے مدد کی ضرورت ہو گی۔

'نصف ضرورت کی تکمیل'

مالی وسائل کی قلت کے باعث مارچ میں کم از کم چار ملین لوگوں کو اپنی ضرورت کی نصف امداد ہی میسر آئے گی۔ مئی میں فصلوں کی آئندہ کٹائی سے پہلے خوراک کے ذخائر ختم ہو چکے ہیں اور یہ افغانستان کے دیہی خاندانوں کے لیے روایتی طور پر سال کا سب سے مشکل وقت ہوتا ہے۔

امداد میں کمی ایسے وقت میں ہوئی ہے جب پہلے سے ہی کمزور افغانستان میں شدید سردی کا ایک اور موسم اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ صفر سے نیچے درجہ حرارت اور معاشی تنگی کے باعث لاکھوں لوگ مایوسی کا شکار ہیں۔

ڈبلیو ایف پی کو اپریل میں 13 ملین لوگوں کی مدد کے لیے 93 ملین اور آئندہ چھ مہینوں کے لیے 800 ملین ڈالر کی فوری ضرورت ہے۔ اگرچہ عطیہ دہندگان نے 2022 میں ریکارڈ مقدار میں امدادی رقم مہیا کی تاہم ڈبلیو ایف پی گزشتہ برس نومبر سے خبردار کرتا آیا ہے کہ مارچ اور اپریل میں زرعی حوالے سے تنگی کا موسم عروج پر پہنچتے ہی مالی وسائل ختم ہو جائیں گے۔

'آخری امید'

افغانستان کو ربع صدی کے عرصہ میں قحط کا شدید ترین خطرہ لاحق ہے جس کی آبادی میں نصف خاندان بقا کے لیے بحرانوں سے نمٹنے کے مخصوص طریقوں پر انحصار کر رہے ہیں۔ ڈبلیو ایف پی کی غذائی امداد افغانستان میں لاکھوں لوگوں کے لیے ''آخری امید'' ہے۔

اگست 2022 سے افغانستان میں ہر 10 میں سے 9 خاندان حسب ضرورت خوراک حاصل کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے جو دنیا میں ایسے لوگوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ قریباً 20 ملین افغان یہ نہیں جانتے کہ انہیں اگلا کھانا کہاں سے ملے گا اور ان میں سے چھ ملین افراد قحط کے دھانے پر ہیں۔

افغانستان کو اپنی تاریخ میں بلند ترین درجے کی متعدل شدید غذائی قلت کا سامنا ہے۔ 2023 میں ملک کی دو تہائی آبادی یا 28 ملین سے زیادہ لوگوں کو انسانی امداد درکار ہے جو 2021 کے مقابلے میں تین گنا بڑی تعداد ہے۔

ان حالات سے نمٹنے کے لیے فیاضانہ مالی مدد کی بدولت ڈبلیو ایف پی نے 2022 میں افغانستان بھر میں اپنی امداد میں اضافہ کیا۔ ادارے نے 23 ملین افراد کو مدد پہنچائی، ایک ملین میٹرک ٹن خوراک تقسیم کی اور خاندانوں کو بقا کے لیے نقد رقم یا واؤچر کی صورت میں 326 ملین ڈالر دیے۔

ڈبلیو ایف پی کے حقائق اور اعدادوشمار

9 ملین افراد کو شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا (نومبر 2022 تا مارچ 2023)

ہنگامی درجے کے شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا کرنے والے افراد (نومبر 2022 تا مارچ 2023) ایک ملین

2023 میں خوراک کی کمی کا شکار حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین: 800,000

2023 میں معتدل شدید غذائی قلت کا شکار 6 تا 59 سال عمر کے افراد: 2.3 ملین

2023 میں شدید غذائی قلت کا شکار 6 تا 59 سال عمر کے افراد: 800,000

2022 میں امداد وصول کرنے والے افراد: 23.4 ملین

2023 میں اب تک امداد وصول کرنے والے افراد: 14.2 ملین

2023 میں سال بھر امداد وصول کرنے والے افراد: 21 ملین